دیکھو تو گھڑے پر پیالہ رکھنے کا یہی طور ہے۔‘‘ [1] حضرت نے اس حکایت کے حاشیے پر اپنے قلم سے لکھا ہے: ’’اس عاجز کی بھی یہی حالت ہے۔ داؤد غزنوی۔‘‘ مرزا جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی لطافتِ طبع کے بہت سے قصے ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ میں درج کیے گئے ہیں۔ ایک اور حکایت کے حاشیے پر حضرت رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس عاجز کو حضرت مرزا صاحب سے بعض احوال و اذواق میں مناسبت ہے۔‘‘ [2] حضرت مرزا صاحب رحمہ اللہ کے حالات میں یہ بھی مندرج ہے: ’’حضرت مرزا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا امتحان اور مجاہدہ سب اسی نفاست و نزاکت طبع میں تھا۔ ایک عورت تھی نہایت بدمزاج، کج خلق، منہ پھٹ، حضرت مرزا صاحب رحمہ اللہ کو الہام ہوا کہ اگر اس عورت سے نکاح کرو اور اس کی بدزبانی و ایذاء دہی پر صبر کرو گے تو تم کو نواز لیا جائے گا۔ حضرت نے فوراً پیام بھیج دیا اور اُس سے نکاح کر لیا۔ وہ عورت اس درجہ تُند خو، بد خصلت، سخت دل اور فحش گو تھی کہ الاماں۔ حضرت مرزا صاحب رحمہ اللہ خوشی خوشی دولت خانہ پر تشریف لے جاتے اور وہ سڑی سڑی سنانی شروع کرتی۔ چپکے بیٹھے سنتے رہتے، زبان سے اُف نہ نکالتے۔ اندر کھولتے آخر واپس تشریف لے آتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح ہوتے ہی خادم کو حکم فرماتے کہ جاؤ دروازہ پر حاضر ہو کر میرا سلام عرض کرو اور پوچھو کوئی کارِ خدمت ہو تو انجام دیا جائے۔‘‘ اس پر حضرت نے لکھا ہے: ’’یہ مقام اس عاجز کو کہاں نصیب ہے۔ داؤد غزنوی۔‘‘ [3] آدابِ مجلس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کوئی چائے پیتے وقت زور زور سے چسکیاں لیتا یا روٹی کھاتے وقت آواز نکالتا، تو انہیں ناگوار ہوتا تھا۔ |