Maktaba Wahhabi

289 - 458
ڈاکٹر اے۔آر کھمباٹا کو ہوائی جہاز سے بلایا گیا، مگر سب کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ اللہ کا حکم آ پہنچا تھا۔ حیات و موت کی شدید کشمکش کے بعد 25 فروری کو جان جان آفریں کے سپرد کر دی اللهم اغفرله وارحمه وادخله في عبادك الصالحين‘‘ 26 فروری: ’’آج 26 فروری کو 10 بجے نماز جنازہ میں شرکت کے لیے یونیورسٹی گراؤنڈ میں گیا۔ مولانا احمد علی صاحب کی وفات اور کل حمید نظامی صاحب کی وفات سے جو صدمہ ہوا ہے، اس کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا۔‘‘ مروت اور رواداری دوست دشمن سب کے ساتھ مروت سے پیش آتے۔ وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر انہیں ایذاء دی اور اُن سے بغض و عناد رکھا، اُن کے ساتھ بھی تپاک سے ملتے۔ انہیں علم ہوتا تھا کہ یہ شخص میری غیر حاضری میں مجھے گالیاں دیتا ہے لیکن شائستگی کے اس معیار سے جو انہوں نے اپنے لیے ٹھہرا لیا تھا۔ وہ نیچے اُترنے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔ ان لوگوں کی عدم موجودگی میں بھی کوئی ناشائستہ اُن کے بارے میں منہ سے نہ نکالتے تھے؎ ترا کے میسر شود ایں مقام کہ باد و ستانت خلاف ست و جنگ ’’تمہیں یہ مقام کیونکر میسر ہو سکتا ہے کہ تم تو اپنے دوستوں کے ساتھ ہی ہاتھا پائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ ایک متعین اور واضح مسلک رکھتے تھے اور زندگی بھر پورے یقین اور اذعان کے ساتھ اس مسلک کا پرچار کرتے رہے، مگر دوسروں کے عقائد و افکار کی تضحیک نہیں کرتے تھے۔ تمام جماعتوں کے زُعماء کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے۔ حق گوئی و بیباکی اگر کسی بات کو حق سمجھتے اور پورا ملک بھی اگر اس کے خلاف ہوتا تو ڈنکے کی چوٹ بَرملا اس بات کو بیان کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک عید کے موقع پر منٹو پارک کے میدان میں تقریر کے دوران حریفوں نے ہلڑ مچایا اور اُن پر پتھر پھینکے۔ سنگ باری نے اُن کی قوتِ بیانیہ پر مہمیز کا کام دیا۔ اُن
Flag Counter