Maktaba Wahhabi

277 - 458
سے صبح کا وظیفہ چھوٹا ہوا تھا۔ وظیفہ پڑھا۔ خلافِ معمول ناشتہ سیر ہو کر کیا۔ اتنے میں میری ہمشیرہ نے میسن روڈ سے ٹیلی فون پر حال پوچھا۔ فون پر کہنے لگے۔ اللہ کا شکر ہے۔ طبیعت اچھی ہے۔ رات نیند ٹھیک آئی۔ صبح ناشتہ کرنے کو جی چاہا۔ طبیعت بحمداللہ پہلے سے بہتر رہی ہے۔ تم کراچی جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ اُنہوں نے رسیور رکھا ہی تھا کہ دل کا شدید دورہ پڑا۔ اس دَورے کی مدت دوچار لمحوں سے زیادہ نہ تھی۔ میں کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ غسل خانے سے نکلا، تو کسی نے بتایا، مولانا صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے، جلد جاؤ، میں بھاگ کر پہنچا اور کئی منٹ اُن کی نبض ڈھونڈتا رہا ۔۔۔ مگر وہ رخصت ہو چکے تھے۔ اُس رفیقِ اعلیٰ کے پیامی 16 دسمبر کو پیر کے دن ٹھیک ساڑھے 9 بجے صبح آئے۔ روح نے قفسِ عنصری سے اس تیزی کے ساتھ پرواز کی گویا اللہ کے بلاوے کے انتظار میں پابہ رکاب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن چاشت کے وقت ہی ہوئی تھی۔ اس مبارک وقت میں اس جہاں سے رخصت ہونے کی سعادت جو حضرت والد علیہ الرحمہ کے حصے میں آئی۔ یہ اتباع سنت اور تاسّی باسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت تھی۔ ان کے چہرے پر ایک طمانیت اور سکون تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دنیا کے جھنجٹوں اور جنجالوں سے چھوٹ کروہ بہت خوش ہیں۔ جنازہ اگلے روز ساڑھے 9 بجے اُٹھایا گیا ۔۔ ہزاروں انسانوں کا ہجوم ۔۔۔ ایک کہرام بپا تھا۔ چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے۔ شیدائی کندھا دینے کے لیے چارپائی کی طرف یوں لپکتے تھے، جیسے پتنگے شمع دان پر گرتے ہیں۔ جنازہ یونیورسٹی گراؤنڈ پہنچا، تو وہاں بھی آدمیوں کا ایک ہجوم منتظر تھا۔ برادرِ محترم سید عمر فاروق غزنوی اور میری خواہش کے مطابق نمازِ جنازہ مولانا محمد اسماعیل صاحب رحمہ اللہ نے پڑھائی۔ میں نے سلام پھیر کر مقتدیوں پر نظر ڈالی۔ آدمیوں کا بے پناہ ہجوم
Flag Counter