ہے۔ صحت بحمداللہ پہلے سے بہتر ہے۔ معدے اور جگر کی اصلاح ہو رہی ہے مگر آہستہ رفتار سے۔ سانس کی تکلیف بھی پہلے سے کم ہے۔ ساتھ آٹھ ماہ بستر پر پڑے رہنے سے کمزوری بہت زیادہ ہے۔‘‘ یہ طبیعت کا سنبھلنا محض عارضی تھا۔ گھر آنے کے بعد ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی، نقاہت بڑھتی گئی۔ جب تک ان میں سکت رہی، انتہائی نقاہت کے باوجود نماز باقاعدگی سے وقت پر پڑھتے رہے۔ روزے برابر رکھتے رہے، نمازِ تراویح التزام سے پڑھتے رہے۔ رمضان میں 29 ویں کی شب ہمارے ہاں قیام ہوتا تھا۔ 1962ء تک وہ قیام اللیل میں شریک ہوتے رہے اور رات تک نوافل پڑھتے رہے۔ 1962ء کے روزنامچے میں 29ویں رمضان کو لکھتے ہیں: ’’آج رات 29 ویں رمضان مبارک تھی۔ عزیز ابوبکر سلمہ اللہ تعالیٰ نے قیام کا انتظام کیا تھا۔ شہر کے تمام اچھے اچھے قاری صاحبان میرے دستخطوں سے خطوط لکھ کر بلانے کا انتظام کیا تھا۔ سب مدعو قاری صاحبان آ گئے، رات بھر قیام رہا۔ عاجز شروع میں کھڑے ہو کر، پھر بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ تین بجے کے بعد وتر پڑھائے مگر اس قدر تھک گیا کہ پیٹھ میں اعصابی درد رہا۔‘‘ آخری ایام آخری دنوں میں بات کم کرتے تھے۔ ﴿ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ﴾ اکثر پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی، بتقاضائے بشریت خیال آتا کہ میرے بعد فلاں بات کا کیا ہو گا؟ تو ساتھ ہی کہہ اُٹھتے ((اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي، لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا))۔ آخری دنوں میں بیماری کی شدت، نقاہت اور بے خوابی کی وجہ سے صبح کی نماز میں بعض اوقات تاخیر ہوتی تو انہیں سخت صدمہ ہوتا۔ |