Maktaba Wahhabi

274 - 458
یہ فقرے بڑی مشکل سے اُنہوں نے پورے کیے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ درود شریف ان دنوں کثرت سے پڑھتے تھے۔ مولانا عبدالرحمان جامی رحمہ اللہ کے نعتیہ کلام پر ایک دن بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے، میں نے مولانا جامی رحمہ اللہ کی نعت کا ایک مطلع پڑھا ؎ نسیم الصبح زرمنی رُبیٰ نجد و قَبِّلْها کہ بوئے دوست مے آیدازاں پاکیزہ منزلہا ’’اے باد نسیم! میری طرف سے نجد کے ٹیلوں کے پاس جا اور اُنہیں بوسے دے کہ اُن مقدس جگہوں سے دوست کی مہک آتی ہے۔‘‘ چہرے کا رنگ بدل گیا اور آنکھیں نم آلود ہو گئیں۔ باقی شعر پڑھنے کی ہمت مجھے نہ ہوئی۔ زندگی کے آخری سال میں دل کا دمہ مسلسل رہا۔ بیماری اُن کے جسم کو برابر چاٹتی رہی۔ مگر اُن کے عزم، اُن کی ہمت اور اُن کی رجائیت کو چاٹنے سے یکسر قاصر رہی۔ 5 مارچ 1963ء کو گلاب دیوی ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ہسپتال ایمبولینس کار میں سٹیچر (Stecher) پر گئے۔ چلنے سے پہلے شیروانی پہنی، سر پر ٹوپی رکھی، ہاتھ میں چھڑی لی، چھڑی سمیت سٹیچر پر لیٹ گئے۔ یہ وضع داری وہ آخری دن تک نباہتے رہے۔ تعجب ہوتا تھا کہ اتنی لمبی بیماری کاٹنے کے باوجود اُن کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حلم اور مزاج کا دھیما پن روز بروز بڑھتا گیا۔ ذرا طبیعت سنبھلتی تو طبیعت کی ظرافت اور چہرے کی بشاشت لوٹ آتی۔ کار ہسپتال پہنچی اور ڈاکٹر بلیغ الرحمٰن خیر مقدم کے لیے تشریف لائے۔ کہنے لگے: ’’آپ کی طبیعت پہلے سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔‘‘ والد صاحب نے مسکرا کر غالب کا یہ شعر پڑھا؎ اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے 26 مئی کو وہ ہسپتال سے گھر آئے جیسا کہ وہ اپنے روزنامچے میں لکھتے ہیں: ’’آج باجازت ڈاکٹر بلیغ الرحمٰن ہسپتال سے رخصت لے کر مکان پر آ گیا۔ علاج انہی کا جاری
Flag Counter