حضرت والد علیہ الرحمہ زندگی کے آخری دو برس مسلسل بیمار رہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ دل کی شریانوں میں خون گاڑھا ہو جانے کی وجہ سے دورانِ خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی، اس رکاوٹ سے دل میں شدید درد ہوتا۔ کتنی راتیں انہیں دردِ دل کے ہاتھوں بستر پر بیٹھے بیٹھے کاٹنی پڑیں۔ رات بھر ہونٹ سی کر چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ جہاں تک بن پڑتا، گھر والوں کو نہیں جگاتے تھے۔ آہیں کھینچتے اور کراہنے سے بھی اجتناب کرتے۔ 1962ء میں جب شاہ سعود کی دعوت پر وہ حجاز تشریف لے گئے، تو مدینہ منورہ میں دل کے دمے کا شدید دورہ ہوا۔ واپسی پر مجھے بتاتے تھے: ’’مدینہ منورہ میں جس ہوٹل میں میرا قیام تھا مولانا مودودی صاحب بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے، جس رات مجھے دورہ پڑا، مولانا مودودی کئی گھنٹے میرے پاس بیٹھے رہے۔ جب تک مجھے افاقہ نہیں ہوا، وہ اپنے کمرے میں نہیں گئے۔‘‘ پھر مولانا مودودی صاحب کو دعا دی۔ ’’اللہ انہیں جزائے خیر دے۔‘‘ حجاز سے واپس آنے کے بعد گریہ اُن پر اکثر طاری رہتا تھا۔ ایک دن عشاء کے وقت جب گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور میں اتفاقاً بیٹھا رہا۔ فرمانے لگے: ’’لوگ سمجھتے ہیں، میں بیماری کی وجہ سے روتا ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کا آج کل مجھ پر شدید غلبہ ہے۔ اُن کی ذاتِ گرامی میرے دل و دماغ پر چھا گئی ہے۔‘‘ |