جس کی اس نو سال کے عرصہ میں یہ حالت ہو گئی ہو کہ جس درد کو داغ اور پھر زخم بنا کر اپنے پہلو میں پالا ہو اور ہر چند کہ صحرائے نجد کے دیوانے کی طرح وہ تمنا کرتا ہو کہ اس عشق سے توبہ کرے اور اس درد کو جو اب ناسور کی شکل میں نہاں خانہ دل میں محفوظ ہے، نکال پھینکے، لیکن اس کی حالت یہ ہو: اَلَيْسَ وعَدتّني يا قلب اني اذا ما تبتُ عن ليليٰ تتوبُ فها انا تائبٌ عن حب ليلٰي فما لك كلما ذكرت تذوبُ[1] بھلا اس شخص کو وہ دھمکی دے سکتا ہے جو اپنی مستقل سیاسی زندگی کے پہلے ہی سال گھٹنوں کے بل گر کر اپنی ٹانگوں کو شل کر چکا ہے؟ جس کے لیے ہماری شہادت کی ضرورت نہیں بلکہ مولانا مہر کا اپنا نامہ اعمال ’’انقلاب‘‘ خود اس کا بہترین شاہد ہے۔ ﴿ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴾ [2] توحید کا آخری شمارہ یکم مئی 1929ء کو شائع ہوا۔ اس کے بعد حالات کی نامساعدت کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔ توحید میں لکھنے والے حضرت والد علیہ الرحمہ کے علاوہ بہت سے ممتاز علماء اور مقتدر ہستیوں کے مضامین ’’توحید‘‘ میں چھپتے رہے، جن میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں: مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ، مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ، قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ، مولانا اسماعیل غزنوی رحمہ اللہ، مولانا محمد علی قصوری رحمہ اللہ ایم اے، مولانا محی الدین قصوری رحمہ اللہ۔ |