نے یہ منظر پیش کیا کہ اگر حنفی نماز پڑھ رہے ہیں تو شافعی بیٹھے اُن کا منہ تک رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب اُن کا امام آئے تو نماز پڑھیں اور اگر شافعی نماز پڑھ رہے ہیں تو حنفی نہایت اطمینان سے بیٹھے ہوئے منتظر ہیں کہ حنفی امام آئے تو نماز پڑھیں۔ لیکن اس جہل و بے بصیرتی کو ملاحظہ کیجیے کہ یہ اختلاف و فرقہ بندی جو مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہوئی، اس کو ((اختلاف اُمتي رحمة)) ’’میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ سنا کر مسلمانوں کے لیے مرغوب و محبوبِ طبائع بنانے کی کوشش کی۔ پس اس قوم کی بدبختی و نامرادی پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو پیاس اور تشنگی کی ہلاکت سے بچنے کے لیے ریگ زار کی طرف دوڑی چلی جا رہی اور ریت کے چمکتے ہوئے ذروں کو سمجھ رہی ہو کہ یہ میٹھے پانی کا تالاب ہے۔ لیکن یاد رکھو! کہ جس طرح ریت کا چٹیل میدان اس کے لیے سیر کامی اور سیرابی کا کوئی پیغام اپنے اندر نہیں رکھتا۔ ٹھیک اسی طرح یہ اختلاف اور فرقہ بندی بھی تمہارے لیے کوئی پیغامِ رحمت نہیں رکھتی اور اگر آج بھی اس اختلاف اور فرقہ بندی کو تم اپنے لیے رحمت سمجھتے ہو جب کہ اس کی بدولت تمہاری قومی زندگی کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر تمہاری مثال اُس نادان مریض کی سی ہے جو بدن کو سمی مادہ سے پھولتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو رہا ہو کہ میں تنومند اور طاقتور ہو رہا ہوں، حالانکہ وہ زندگی کے آخری لمحات ختم کر رہا ہے اور قریب ہے کہ وہ زہر اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ لیکن تم نے مصری کے دھوکے میں جو زہر کی ڈلی کھائی ہے، اُس نے تو جسدِ اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں۔ اب کس چیز کا انتظار ہے؟ [1] |