’’قرآن کریم نے سختی کے ساتھ اس اختلاف اور فرقہ بندی سے منع کیا اور گمراہ قوموں کے نقشِ قدم پر چلنے سے روکا اور مسلمانوں کی شان کے اس کو یکسر خلاف بیان کیا اور فرمایا: ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ﴾ ’’مسلمانو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے مذہب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اللہ تعالیٰ کے صریح احکام کے ہوتے ہوئے پھر بھی اختلاف کیا۔‘‘ آج ہم نے بھی خدا کے صریح احکام کے ہوتے ہوئے تفرق و تخرب کی شدید ترین مذمت قرآن مجید میں پڑھتے ہوئے اور اسی اختلاف و فرقہ بندی سے اگلی اُمتوں کی تباہ حالیاں معلوم کر لینے کے بعد اسلام کو بھی کئی فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ پس نہ تو گزشتہ قوموں سے ہم عبرت حاصل کر سکے اور نہ ہم نے اللہ کی کتاب کی اس بارہ میں ترغیب و ترہیب کو قبول کیا۔ اُس نے تو یہ فرمایا کہ ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ﴾ ’’جن لوگوں نے مذہب میں تفرقہ اندازی کی اور اسے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے، تمہارا اُن سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘‘ لیکن ہم نے کہا اسلام چار فرقوں میں منقسم ہے اور جو ان چار فرقوں سے علیٰحدہ ہوا وہ ناری اور جہنمی ہے اور اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور اگر اسی پر کفایت کرتے تو ایک بات بھی تھی، لیکن اس کے بعد ہر فریق نے دوسرے فریق کے ساتھ نفرت و حقارت کا سلوک کیا۔ نماز جو سب مسلمانوں کو خدا کے حضور جمع کرنے والی چیز تھی، اس میں ہم نے کہا کہ شافعی امام کے پیچھے حنفی کی نماز جائز نہیں اور حنفی کے پیچھے شافعی کی نماز جائز نہیں۔ اس تفریق و تجزی کو ہم نے معراجِ کمال تک پہنچانے کے لیے بیت اللہ، مسجد الحرام کے بھی چار ٹکڑے کر دیے۔ وہ جگہ جو وحدتِ اسلام اور اتحاد کلمۃ المسلمین کے بہترین مناظر پیش کرتی تھی، اس میں ہم |