ہو گی بلکہ جس قدر سعی و کوشش اپنی رہائی اور مخلصی کی کریں گے، اپنی ذلت و نامرادی کی چاروں طرف لپٹی ہوئی زنجیروں کی بندش اور سخت تر ہو جائے گی اور دنیا میں ایک لمحہ کے لیے بھی ہمیں کامیابی و کامرانی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہو گا۔ آپ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے اور پانی ڈبوتا ہے، مچھلی خشکی میں اور پرند دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے، لیکن میں کہتا ہوں یہ ممکن ہے کہ آگ نہ جلائے اور پانی نہ ڈبائے۔ مچھلیاں خشکی میں اور پرند دریاؤں میں زندہ رہیں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ خدا کا وہ قانونِ ہدایت و شقاوت بدل جائے جس کے لیے ایک بھی مستثنیٰ نہیں۔ جو کچھ میں آپ سے کہہ رہا ہوں، اس کے لیے میرے دل میں یقین و اذعان کی ایک ایسی حی و قائم آواز ہے جس کی ترجمانی کے لیے افسوس کہ میرا خزینہ الفاظ ناکافی ہے اور میں حیران ہوں کہ کس طرح اس دلی یقین کو آپ کے دلوں میں پیدا کروں۔ تاہم میں یہ کہوں گا اور جب تک میرے قلم میں روانی اور زبان میں طاقتِ گویائی ہے یہ کہوں گا اور کہتا چلا جاؤں گا اور یہ کہنے سے کبھی نہ تھکوں گا کہ کتاب اللہ کے جن احکام کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن سنتوں کو تم مذہبی بندش کہہ کر گزر جاتے ہو، وہ بندش تو ضرور ہے لیکن یاد رکھو! کہ نظمِ کائنات کے تمام اجزاء اسی بندش سے بندھ کر مرتب اور منظم ہوتے ہیں اور یہی وہ بندش ہے جس کو لسانِ الٰہی نے کہیں ’’حدود اللہ‘‘ اور کہیں ’’سنۃ اللہ‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور کبھی ’’صراط مستقیم‘‘ اور ’’دینِ قیم‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ [1] ’’صراط مستقیم‘‘ میں مذہبی فرقہ بندیوں کے خلاف اُنہوں نے بھرپور آواز اُٹھائی اور مسلمانوں کو اتحاد و یگانگت کی دعوت دی۔ اس مضمون کی تیسری قسط میں یوں رقمطراز ہیں: |