دنیوی جاہ و جلال شیطان کا نشیمن بنا ہوا ہے، کہیں غرور علم و فضل کے اندر سے شیطان جھانک رہا ہے، کہیں مذہبی پیشواؤں کی جماعتیں اس کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں، کہیں اہل و عیال کی محبت میں، قومی رسم و رواج کی بندشوں اور آبائی تقلید کی زنجیروں کے اندر بھی اس کے تعبد اور انقیاد کی کشش مخفی ہے۔ پس مقام ﴿مَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ﴾ کے حاصل کرنے کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان ان تمام طاقتوں کی اطاعت و فرمانبرداری سے یکسر باغی و سرکش ہو جائے اور اُن کی عظمت و جبروت کے اثر سے اپنے دل کو آزاد کر دے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جہاں تک طلبِ صادق کی قوت اور توفیقِ الٰہی کی ہمت اس کا ساتھ دے، ان تمام ابلیسی مظاہر کے مقابلے میں ایک اولو العزمانہ جہاد کا اعلان کر دے اور اطاعت و تعبد الٰہی کی بے نیام تلوار لے کر فاتحانہ کھڑا ہو جائے تاکہ بدعت و ضلالت کا ہر بت جو سامنے آئے، حق و صداقت، توحید و سنت کی بے پناہ ضرب سے پاش پاش کر دے اور خدا کے دین کی عزت و عظمت کو بلند کرنے کے لیے اپنی زبان کو، اپنے دماغ کو اور اپنی تمام قوتوں کو وقف کر دے۔ ((لتكون كَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا)) [1] توحید کے پانچویں شمارے میں ایک معرکہ آراء مضمون: ’’صراطِ مستقیم یعنی مسلمانوں کے لیے موجودہ تفرق و انتشار میں شاہراہِ عمل‘‘ لکھا۔ یہ مضمون بھی تین قسطوں میں چلا۔ اِس مضمون میں بھی مسلمانوں کو آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے مستنیر ہونے کی دعوت دی۔ لکھتے ہیں: |