2۔ اختلاف کی صورت میں مجلسِ قانون ساز کے صدر کی نہیں بلکہ فیڈرل کورٹ کے جج کی رائے حتمی تسلیم کی جائے۔ ان مطالبات کو کانگریس کی مجلسِ منتظمہ کے پاس مناسب کارروائی کے لیے بھیجا گیا لیکن نہ صرف یہ کہ کانگریس نے ان مطالبات کا کوئی نوٹس نہ لیا اور نیشنلسٹ مسلمانوں کو ان کی رسید سے بھی اطلاع نہ دی، بلکہ اُنہوں نے اپنے مطالبات میں جو اُنہوں نے وزارتی مشن کے سامنے رکھے، نیشنلسٹ مسلمانوں کے مطالبات کی صریح مخالفت کی، چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ کانگریس اب ’’ہر قسم کی مساوات‘‘ کی مخالفت ہے۔ اس صورت میں سوال یہ ہے کہ آیا نیشنلسٹ مسلمان کانگریس کے صرف خیمہ بردار بن کر رہ جائیں گے؟ آگے چل کر آپ اپنے بیان میں فرماتے ہیں: قانون ساز اسمبلی کے لیے کانگریس نے بعض مشہور مہاسبھائیوں مثلاً راجہ مہیشور دیال، ڈاکٹر شیاما پرشاد مُکرجی اور سرٹیک چند وغیرہ کو منتخب کر کے اپنے شدید طور پر فرقہ وار جماعت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مولانا صاحب نے غیر لیگی مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ واقعات کی روشنی میں اپنے مؤقف کا تجزیہ کریں اور مسلم لیگ میں شامل ہو کر ملت اور ملک کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہوں۔ [1] میں نے ایک دفعہ اُن سے پوچھا کہ آپ نے لیگ میں شامل ہوتے وقت کیا مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ سے مشورہ کیا تھا؟ تو فرمانے لگے کہ اگر اُن کے پاس مشورے کے لیے چلا جاتا تو مجھے کبھی مسلم لیگ میں شامل نہ ہونے دیتے۔ قرینِ مصلحت یہی تھا کہ لیگ میں شمولیت کے اعلان کے بعد اُن سے ملاقات کرتا۔ لیگ میں شامل ہونے کے بعد اُنہوں نے ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے بڑے شہروں کا دَورہ کیا اور مسلمانوں کے سامنے ہندو اور انگریز دونوں کے عزائم بے نقاب کیے اور اُن کے |