Maktaba Wahhabi

247 - 458
سے ہوا دیتے تھے۔‘‘ پھر انہیں پنجاب کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ اس جماعت کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پورے پنجاب میں وہ تنہا تھے جو لیلی اُمیدوار کے مقابلے میں کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے تھے اور یہ بات اُن کے عوام میں اثرورسوخ اور ہر دلعزیز کا واضح ثبوت ہے۔ کانگریس سے استعفا جب حضرت والد علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ کانگریس کی ذہنیت تو مہا سبھائیوں کی سی ہے اور ہندو مسلم اتحاد کا محض ڈھونگ رچا رکھا ہے، تو وہ کانگریس سے اسی وقت مستعفی ہو گئے۔ 2 اگست 1946ء کے اخبارات میں ان کا جو بصیرت افروز بیان چھپا، وہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ’’لاہور 2 اگست، ’’ہر قسم کی مساوات‘‘ کی مخالفت کر کے کانگریس نے نیشنلسٹ مسلمانوں کے لیے فکر و تدبر کا سامان بہم پہنچا دیا ہے۔ اگر آج کانگریس کا مفہوم اور مقصد صرف اسی قدر رہ گیا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے ہندوؤں کی سیاسی اور اقتصادی بہبود اور ترقی کے لیے کوشاں ہے تو ان مسلمانوں کے لیے اس میں ٹھہرنے کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے، جو اس میں اس لیے شامل ہوئے تھے کہ یہ آزادی کے لیے انگریز سے لڑ رہی ہے۔‘‘ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ سابق صدر پنجاب کانگریس کمیٹی نے اخبارات کے نام ایک طویل بیان دیتے ہوئے نیشنلسٹ مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کانگریس کے باب میں اپنے رویہ پر نظرثانی کریں۔ آپ اپنے بیان کے دوران میں فرماتے ہیں کہ 10، 11، 12 جون 1946ء کو دہلی میں تمام نیشنلسٹ مسلمانوں کی جماعتوں مثلاً جمعیت العلمائے ہند، مجلسِ احرار اور مومن کانفرنس کی مجالس ہائے منتظمہ کا ایک مشترکہ جلسہ ہوا تھا، جس میں اُنہوں نے مندرجہ ذیل مطالبات وضع کیے تھے: 1۔ عارضی اور مستقل گورنمنٹ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مساوات کا اُصول تسلیم کیا جائے۔
Flag Counter