کرشنا مارکیٹ تک ہی پہنچے تھے کہ جنرل ڈائر گولی چلا کر سینکڑوں افراد ہلاک کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا۔ 1921ء میں جمعیتِ علمائے ہند کی تشکیل ہوئی تو اس کی تاسیس و تشکیل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ابتداء میں مجلسِ عاملہ کے رُکن تھے، پھر مدتوں نائب صدر رہے۔ یہ 1921ء ہی کی بات ہے کہ برطانوی سامراج کے خلاف اس قدر گرجدار آوازہ بلند کیا کہ تین سالوں کے لیے میانوالی جیل میں نظربند کر دیے گئے۔ رہا ہوئے تو پہلے سے بھی زیادہ گرمجوشی کے ساتھ آوازہ حق بلند کیا۔ 1925ء میں دوسری بار گرفتار ہوئے۔ اس دفعہ اُنہوں نے جیل میں قیدیوں کے ساتھ حکام کے غیر انسانی سلوک کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ سیاسی نظربندوں کو مناسب مراعات دے۔ 1927ء میں اُنہوں نے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور تیسری بار قید و بند کی آزمائش سے دوچار ہوئے۔ 1929ء میں چند خلافتی ساتھیوں کو ساتھ لے کر اُنہوں نے مجلسِ احرارِ اسلام کی بنیاد ڈالی۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے اشتراک اور تعاون سے اُنہوں نے مجلسِ احرار کے پہلے سیکرٹری کی حیثیت سے دو اڑھائی برس کے مختصر عرصے میں اسے ایک منظم اور جاندار تحریک بنا دیا۔ 1932ء میں جب احرار نے ’’تحریکِ کشمیر‘‘ شروع کی تو برصغیر کے ہزاروں احرار رضا کاروں سے ریاست کی جیلیں بھر گئیں اور خود حضرت والد علیہ الرحمہ بھی گرفتار کر لیے گئے۔ 1942ء میں جب کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی مہم شروع کی تو وہ کانگریس میں شامل ہو گئے اور اس مہم میں بھرپور حصہ لیا اور گرفتار کر لیے گئے۔ فرماتے تھے کہ انگریز مجلسِ احرار کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور کانگریس ہی ایک ایسی فعال جماعت تھی جسے برطانوی حکومت درخورِ اعتنا سمجھتی تھی اور وہی ایک واضح اور مرتب لائحہ عمل پیشِ نظر رکھ کر برطانوی سامراج سے برسرِ پیکار تھی، اسی بناء پر میں کانگریس میں شامل ہوا تھا۔ کبھی کبھی یوں بھی فرماتے: ’’اُن دنوں انگریز دشمنی کا عجب عالم تھا، ہر وہ چولہا جس میں انگریز کے خلاف آگ جل رہی ہوتی تھی، ہم اس میں اور ایندھن جھونکتے تھے اور اُسے اپنے دامن |