Maktaba Wahhabi

245 - 458
سیاسی زندگی 1919ء کی بات ہے جب ترک انگریز کے خلاف صف آراء تھے اور مسلمانانِ ہند کی ہمدردیاں ترکوں کے ساتھ تھیں۔ اُسی زمانے میں تحریکِ خلافت کا آغاز ہوا۔ حضرت والد علیہ الرحمہ اس تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ جب اُنہوں نے سیاست میں قدم رکھا، وہ دَور انگریز کے جبر اور استبداد کا دَور تھا۔ ملک میں مارشل لاء نافذ تھا۔ انہوں نے انگریز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ وہ حق گوئی اور بیباکی کا پیکر بن گئے۔ جن لوگوں کو اس دَور میں ان کی تقریریں سننے کا موقع ملا، اُن کا کہنا ہے کہ جب وہ انگریز کے خلاف تقریر کرتے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ آگ برسا رہے ہیں اور اُن کے لفظوں پر شعلوں کا گمان ہوتا تھا۔ اُن کی اور اُن کے رفقاء کی بیباکانہ تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ عوام کے دلوں سے مارشل لاء کی ہیبت اُٹھ گئی۔ اُن کی شعلہ فشانی نے جمود کی برف توڑ ڈالی اور عوام کے دلوں میں انگریز کے خلاف نفرت کی چنگاریاں سلگنے لگیں اور حصولِ آزادی کا جذبہ اُبھرنے لگا۔ انگریز کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اُٹھی اور وہ پوری گرم جوشی کے ساتھ اُسے اپنے دامن سے ہوا دیتے رہے۔ جلیانوالہ باغ کے حادثے میں حضرت والد علیہ الرحمہ اور میرے چچا حضرت مولانا اسماعیل علیہ الرحمہ بال بال بچ گئے۔ جس روز جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا، یہ دونوں بھائی نمازِ عصر سے فارغ ہو کر جلیانوالہ باغ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان دونوں بھائیوں نے اس روز جلیانوالہ باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ مسجدِ غزنویہ سے نکل کر ملکہ وکٹوریہ کے بت کے قریب پہنچے تو وہاں ایک تنبولی کی دوکان پر پان کھانے کے لیے رُک گئے۔ اسی اثناء میں جنرل ڈائر اپنی گورا فوج کے ہمراہ جلیانوالہ باغ کی طرف جاتے ہوئے اُن کے قریب سے گزرا۔ وہ پان کھا کر
Flag Counter