Maktaba Wahhabi

243 - 458
حقیقی معنوں میں فیضان اور رحمت کا سرچشمہ بن گیا جس سے طلباء اپنی تشنگی بجھانے کے لیے دور دور سے چل کر آتے رہے۔ آپ نے بدعات اور محدثات کے خلاف بڑی قوت سے آوازہ بلند کیا اور تمام وہ سنتیں جو مدفون اور مستور ہو چکی تھیں، انہیں ازسرِنو زندہ کیا۔ اتباعِ سنت کے جرم کی پاداش میں انہیں ایذائیں دی گئیں حتیٰ کہ انہیں اللہ کی خاطر غازی پور کو خیرباد کہنا پڑا اور مولانا عبدالعزیز صاحب اور مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی کے اصرار پر ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کی قیادت منظور فرمائی۔ یہاں بیس سال تک یہ دولتِ علم لٹاتے رہے۔ جس وقت مدرسہ احمدیہ، آرہ کے بانی مولانا ابراہیم آروی رحلت فرما گئے تو مولانا عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کا قیام بھی آرہ میں نہ رہ سکا۔ دہلی والوں کی درخواست پر آپ دہلی چلے آئے اور ایک مدت تک لوگوں کو فیضیاب کیا۔ دہلی میں آٹھ سال قیام رہا۔ آپ کا معمول دہلی میں یہ تھا کہ صبح حوض والی مسجد (نئی سڑک) میں درسِ قرآن دیتے۔ ظہر تک ’’مدرسہ ریاض العلوم‘‘ (نزد جامع مسجد) میں اور بعد ظہر مدرسہ علیجان (متصل گھنٹہ گھر) میں پڑھاتے۔ جب لکھنؤ میں آپ کے عزیز خان بہادر فوت ہوئے تو ان کی تعزیت کے لیے آپ لکھنؤ تشریف لے گئے، مگر وہاں گھریلو معاملات میں ایسے اُلجھے کہ پھر دہلی نہ جا سکے۔ لکھنؤ میں بھی اُن کا فیضان جاری رہا۔ ندوۃ العلماء کے بعض ممتاز طالب علم آپ سے پڑھنے آتے۔ اُن میں کچھ شامی طالب علم بھی تھے۔ یہ اُن کی زندگی کے آخری ایام تھے۔ لکھنؤ ہی میں وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ [1] مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ وہ سربرآوردہ فقیہ تھے اور اس قدر تبحرِ علمی کے باوجود اور درس و تدریس میں اس قدر مشغول ہونے کے باوصف وہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔[2] مولانا عبدالحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک یا دو بار
Flag Counter