حضرت عبدالحی صاحب رحمہ اللہ والدِ ماجد حضرت میاں ابو الحسن علی صاحب ندوی نے اپنی کتاب ’’نزهة الخواطر‘‘ کی آٹھویں جلد میں جنابِ موصوف کے مختصر اور جامع حالاتِ زندگی لکھے ہیں۔ حضرت مولانا عبدالحی رحمہ اللہ حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ کے معاصر ہیں۔ کتاب عربی میں ہے۔ اس کے علاوہ امام ابو یحییٰ خاں صاحب نوشہروی رحمہ اللہ نے ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ میں اُن کے حالات خوش اسلوبی سے بیان کیے ہیں۔ آپ علومِ دینیہ کے بہتے ہوئے دریا تھے۔ ایک دنیا آپ سے فیضیاب ہوئی۔ آپ کے حلقہ درس سے بڑے بڑے اہل علم و فضل پیدا ہوئے۔ مولانا محمد سعید بنارسی جیسے فاضل آپ سے مستفید ہوئے۔ مولانا عبدالغفور حاجی پوری مظفر پوری اور حضرت شاہ عین الحق جیسے بزرگوں نے آپ سے استفادہ کیا۔ مولانا عبدالسلام مبارک پوری اور مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری صاحب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔ [1] الشیخ الصالح علامہ عبداللہ، عبدالرحیم بن دانیال کے فرزند تھے۔ 1261ء میں ضلع اعظم گڑھ میں مئو کے مقام پر پیدا ہوئے۔ [2] آپ نے بارہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ فارسی اور عربی کی بعض درسی کتابیں مولوی قائم صاحب مووی سے ہی پڑھیں۔ یہ وہی زمانہ ہے جب 1857ء کی جنگِ آزادی برپا ہوئی تھی اور بہت سے لوگ بے خانماں ہوئے۔ آپ کے والدین نے اسی زمانے میں مئو چھوڑ کر غازی پور میں سکونت اختیار کی۔ غازی پور کے مدرسہ ’’چشمہ رحمت‘‘ میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مولانا رحمت اللہ صاحب لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ اور مفتی نعمت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے درسی کتابوں کی تکمیل کی۔ پھر جونپور تشریف لائے اور ’’مدرسہ امامیہ حنفیہ‘‘ سے مفتی یوسف بن محمد اصغر لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا۔ [3] مولانا عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں: |