Maktaba Wahhabi

240 - 458
جنہیں حضرت الامام عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ غزنویہ میں مدرس رکھا ہوا تھا۔ دہلی ان دنوں علومِ دینیہ کا مرکز تھا۔ دل وہاں جانے کے لیے بیتاب تھا۔ حضرت والد رحمہ اللہ کا اتنا رُعب اور ہیبت تھی کہ اُن سے اجازت لینے کی جرأت نہ ہوئی۔ دہلی پہنچ کر حضرت والد رحمہ اللہ کو خط لکھا اور دہلی میں قیام کی اجازت چاہی۔ حضرت والد رحمہ اللہ کا اجازت نامہ آنے سے پہلے کچھ وقت مجھ پر ایسا بھی گزرا کہ میرے پاس روٹی کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ میں دن بھر پڑھتا اور دونوں وقت چنے چبا کر بسر اوقات کرتا۔‘‘ آپ اس درسگاہ سے فیضیاب ہونے کے لیے مضطرب تھے، جس سے حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت الامام عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ فیضیاب ہو چکے تھے اور یہ درسگاہ تھی، حضرت میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی۔ آپ کو استاذ الاساتذہ حضرت عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ سے علمِ حدیث پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ علومِ عقلی میں مولانا سیف الرحمٰن کابلی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔ وہ مدرسہ فتح پوری کے مشہور مدرس تھے اور حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے خاص رکن تھے اور مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ اور مولانا آزاد رحمہ اللہ سے مراسم رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی مختصر طور پر یہاں قلمبند کیے جاتے ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ حضرت والد علیہ الرحمہ کن عظیم المرتبت اساتذہ سے فیضیاب ہوئے تھے۔ حضرت میاں نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ’’میرے درس میں دو عبداللہ آئے ہیں، ایک عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور دوسرے عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ۔‘‘ [1]
Flag Counter