باقی ہے اور میرے جسم پر سلامت ہے۔ کتاب و سنت کی خدمت نہایت گرم جوشی سے کروں۔ یہ کیا مصیبتیں ہیں جو مجھ پر آتی ہیں۔ میں تو اپنے آقا سے یہی آرزو کرتا ہوں کہ اس راستے میں میرے پرزے اُڑا دیے جائیں اور میری انتڑیاں جنگلوں کی خاردار جھاڑیوں پر پھینک دی جائیں اور کوے اُن پر اپنی چونچیں ماریں۔)) آپ نے جوشِ ایمانی سے اور بھی ایسی باتیں کیں۔ تمام اہلِ مجلس، کیا جرنیل اور کیا حاکمِ صوبہ سب رو رہے تھے۔ سردار محمد عمر نے امیر افضل خاں اور اعظم خاں کے نام خط لکھا کہ آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے اس شخص کو گرفتار کر لیا، مگر یہ شخص فقیر اور ولی اللہ ہے اور دنیوی اعتبار سے بالکل بے سروساماں ہے۔ بہرحال اپنے حکم سے مطلع فرمائیں۔ امیر افضل خان اور اعظم خاں نے جواب میں لکھا کہ پوری احتیاط کے ساتھ کابل میں ہمارے پاس پہنچا دو۔ ملا مشکی اور ملا نصر اللہ امیر افضل خاں اور اعظم خاں کے پاس گئے اور کہا کہ امیر دوست محمد خاں کے عہد میں ہم اس کا کفر ثابت کر چکے ہیں، اب دوبارہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ مصائب میں استقامت سب نے متفق ہو کر قتل کا فتویٰ لکھا، مگر سرکاری مولویوں میں سے ملا مشکی قدرے انصاف پسند تھا۔ اُس نے قتل کے فتوے پر دستخط نہ کیے۔ بڑی گفتگو کے بعد قتل کا فتویٰ واپس لیا گیا، لیکن علماء سوء کے فتوے کے مطابق آپ کو دُرے مارے گئے۔ آپ کے سر اور داڑھی کو مونڈ دیا گیا۔ آپ کا چہرہ مبارک سیاہ کیا گیا اور آپ کو گدھے پر سوار کر کے شہر بھر میں گشت کرایا گیا۔ پھر آپ کو قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ آپ کے ارادتمندوں میں سے ایک شخص آپ کے پاس قید خانے میں آ کر اس واقعہ پر رونے لگا۔ فرمایا: تو کیوں روتا ہے، عزت اور داڑھی کیا چیز ہے جو مولا کی راہ میں اور اس |