بہت متنفر تھے۔ اس قدر آزمائشوں میں بھی آپ کسی امیر کے پاس نہ گئے۔ آپ نے امیر شیر علی خاں کے نام ایک خط میں لکھا کہ میں مظلوم ہوں اور حاسدوں نے مجھ پر جھوٹی تہمتیں باندھی ہیں۔ تمہارے باپ نے مجھے ملک بدر کیا تھا۔ تم اس بارے میں اپنے باپ کی پیروی نہ کرنا۔ اُس نے جواب میں لکھا کہ میں تمام رعایا کے خلاف ایک شخص کی رعایت نہیں کر سکتا۔ تم فوری طور پر ہمارے ملک سے باہر ہو جاؤ۔ اخراج کا حکم نامہ یکایک ملنے پر آپ حیران تھے کہ کس طرف جائیں۔ جنگل کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور کچھ مدت وہیں پوشیدہ رہے۔ انہی دنوں آپ کو الہام ہوا: ﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ’’پس جن لوگوں نے ظلم ڈھایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور حمد و ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ اُسی زمانے میں امیر شیر علی خاں کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ وہ ذلیل و نامراد ہوا اور اُس نے ہرات میں جا کر پناہ لی۔ پھر محمد افضل خاں امارت کے عہدے پر فائز ہوا۔ علماء سوء نے پھر وہی جھوٹی تہمتیں آپ پر باندھیں۔ محمد افضل کو آپ کے خلاف اُکسایا۔ آپ کسی حاکم کے پاس جانا پسند نہ فرماتے تھے۔ امیر محمد افضل خاں نے مقر کے حاکم کے نام خط لکھا کہ فلاں شخص کو گرفتار کر لو۔ سردار محمد عمر خاں نے اُسی وقت ایک مسلح سواروں کا دستہ راتوں رات بھیج دیا جنہوں نے آدھی رات کے قریب آپ کے مکان کا احاطہ کر لیا۔ اُنہوں نے آپ کو گرفتار کر لیا اور آپ کو آپ کے سامان سمیت امیر دوست محمد خاں کے بیٹے سردار محمد عمر خاں کے پاس لے گئے۔ آپ کے فرزندوں میں سے اس وقت آپ کے ہمراہ مولانا محمد صاحب، مولانا عبداللہ صاحب اور مولانا عبدالجبار صاحب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین تھے۔ سب کو یقین تھا کہ آپ کو سخت سزا دی جائے گی، مگر سردار محمد عمر خاں آپ کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی نرم پڑ گیا۔ بڑے ادب کے ساتھ کہنے لگا۔ آپ کیوں اس راستے کو چھوڑ نہیں دیتے۔ جو کچھ |