آپ کے اخراج کا پروانہ لے کر پہنچے۔ آپ ملکِ نادہ چلے گئے اور وہاں اقامت فرمائی۔ امیر دوست محمد خاں نے آپ کو وہاں سے بھی نکالنے کا حکم بھیج دیا اور آپ کو اہل و عیال سمیت یا غستان کے پہاڑوں میں سکونت پذیر ہونا پڑا۔ اس تمام عرصے میں آپ کے عزم و ہمت اور صبر و استقامت کا دامن یکسر بے داغ رہا۔ جب نادہ کے علماء سوء کو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ یا غسّان کے پہاڑی علاقے میں بے یارومددگار پڑے ہیں تو سینکڑوں آدمیوں کو ساتھ لے کر آپ پر حملہ آور ہوئے، آپ کے گھروں کو جلا دیا اور آپ کے بعض مریدوں کو زخمی کر دیا، مگر آپ اور آپ کے اہل و عیال کی اللہ تعالیٰ نے ایسی حفاظت کی کہ وہ سب اپنے دشمنوں سے سلامت نکل آئے۔ آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’سبحان اللہ دریں امتحانات و جلاوطنی و دشمنی، تمام عالم چناں مرفہ الحال و خوش عیش می ماند کہ ہیچ امیری اطیب عیش ازوندیدم گویا از غیب نعم گوناگوں برسرش می بارید کدام نعمتے بود کہ درآں کو مھا پیشش نمیر سید۔‘‘ [1] ((سبحان اللہ! ان آزمائشوں کے دَور میں اور جلاوطنی اور تمام جہان کی دشمنی کے زمانے میں وہ اس قدر خوشحال تھے کہ کسی امیر کو میں نے آپ سے بڑھ کر خوشحال نہیں دیکھا۔ گویا غیب سے رنگا رنگ کی نعمتیں آپ کی سر پر برستی تھیں۔ وہ کون سی نعمت تھی جو اُن پہاڑوں میں آپ کے پاس نہیں پہنچتی تھی)) وطن کو واپسی اور دوبارہ جلا وطنی انہی دنوں امیر دوست محمد خان نے شہر ہرات میں وفات پائی۔ آپ پھر اپنے وطن واپس چلے گئے جہاں کے اکثر باشندے آپ کے عقیدت مند تھے۔ امیر شیر علی خاں ملک کا امیر ہوا۔ علماء سوء نے امیر شیر علی خاں کو بھی آپ کے خلاف بھڑکایا۔ آپ اُمراء کی ملاقات سے |