Maktaba Wahhabi

227 - 458
ہم کبھی اس پر غالب نہ آ سکیں گے۔ اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں کہ اس کے خلاف جھوٹی گواہی دی جائے اگر بحث تک نوبت پہنچی، تو ہم سب کو شرمندگی اور خجالت اُٹھانی پڑے گی۔ حضرت کے مخالفین نے امیر سے کہا کہ اس شخص کے ساتھ ہم کوئی گفتگو اور مناظرہ نہیں کریں گے۔ ہم گواہوں کے ذریعے ثابت کریں گے کہ یہ شخص ایسے کلمات بولتا ہے جس سے اس کے کافر اور مرتد ہونے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا۔ جھوٹے گواہوں نے گواہی دی کہ یہ شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منکر ہے، شفاعت کا منکر ہے اور خود نبوت کا مدعی ہے۔ امیر سمجھ تو گیا کہ یہ سب جھوٹ ہے مگر اس ڈر کے مارے کہ یہ علماء ملک میں فساد اور ہنگامہ برپا کریں گے، کہنے لگا مصلحت یہی معلوم ہوتی ہے کہ آپ اس ملک سے چلے جائیں اور کابل سے آپ کو نکال دیا۔ آپ کے سب پیرو اور احباب آپ کی جدائی پر گریہ و زاری کر رہے تھے، مگر آپ کو کچھ بھی اضطراب نہ تھا اور فرمایا کہ یہ جلاوطنی، اہل و عیال سے جدائی جب آقا کی راہ میں ہے اور رب الارباب کی رضا جوئی کے لیے ہے تو پھر کیا پروا ہے۔ جلاوطنی پس امیر دوست محمد خاں نے آپ کو جلاوطن کر دیا اور آپ ملک سوات، وہاں سے کوٹھ اور پھر ہزارہ تشریف لے گئے اور ایک دنیا اس سفر میں آپ سے فیضیاب ہوئی اور ہزارہ سے آپ حضرت میاں نذیر حسین صاحب محدث رحمہ اللہ سے فیضیاب ہونے کے لیے دہلی پہنچے اور کتبِ احادیث کی سند اُن سے حاصل کی۔ جب آپ سند لے کر لوٹے تو یہ وہی دور تھا جب 1857ء کی جنگِ آزادی برپا ہوئی تھی اور دہلی میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ آپ دہلی سے پنجاب تشریف لائے اور لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا شروع کیا۔ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینے لگے۔ کچھ عرصہ پنجاب میں قیام فرمانے کے بعد براستہ ڈیرہ اسماعیل خاں اپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اتنی مدت گزر گئی ہے، امیر دوست محمد خاں کا خیال اب تک بدل چکا ہو گا۔ ابھی وطن میں ایک مہینہ ہی قیام ہوا ہو گا کہ یکایک امیر دوست محمد خاں کے سوار
Flag Counter