علماء سوء اور حُکام کی ایذا رسانی جب آپ نے خالص توحید اور اتباع سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف آواز اٹھائی تو خواص و عوام میں سے بہت سے لوگ، علماء اور حکام جو آپ کے ارادتمند تھے، آپ کے مخالف ہو گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہوئے۔ اس علاقے کے علماء آپ کے ساتھ عمل بالحدیث خلافِ مذہب کے مسئلہ پر مباحثہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ آپ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت تھی کہ اُن تمام علماء نے اعتراف کر لیا کہ وہ غلطی پر ہیں اور مان لیا کہ آپ حق پر ہیں حالانکہ مقابلے کے وقت ایسا اقرار علماء کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسرے علاقوں کے علماء نے یہ ماجرا سنا تو وہ بھی ایسے خائف ہوئے کہ حضرت کے ساتھ گفتگو اور مباحثے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اُنہوں نے لشکر اکٹھا کیا اور جنگ کا ارادہ کیا، مگر چونکہ آپ کے پیرو، محبین اور معتقدین بھی بہت تھے، مخالفین آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ناچار حکام وقت کے پاس اُنہوں نے شکایت کی اور رنگا رنگ کے جھوٹ اور بہتان اُن پر باندھے اور بعض سرداروں کی وساطت سے امیر دوست محمد خاں کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ اس شخص کو اگر ایک سال یونہی مہلت دی گئی تو تمہاری بادشاہت کو برباد کرے گا اور نظامِ حکومت میں خلل ڈال دے گا۔ تمام امراء، وزراء اور عہدیدار اس شخص کے معتقد اور مرید ہیں۔ آپ کے بعض احباب نے آپ کو مشورہ دیا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ امیر دوست محمد خاں کے طلب کرنے سے پہلے ہی ہم کابل چلے جائیں اور حقیقتِ حال سے امیر کو آگاہ کر دیں۔ حضرت کی مرضی تو نہ تھی مگر احباب کے پاسِ خاطر سے کابل روانہ ہوئے اور امیر دوست محمد خاں سے ملاقات کی۔ مخالف علماء بھی آ گئے۔ اُن علماء میں خان مُلا درانی، ملا مشکی انڈری اور ملا نصراللہ لوہانی بھی شامل تھے۔ اُن کے علاوہ سینکڑوں مُلا اکٹھے ہو گئے۔ اُن کے درمیان خفیہ صلاح مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ اگر علمی مناظرہ اور فقہی مباحثہ ہوا تو |