Maktaba Wahhabi

225 - 458
اللہ عزوجل آپ کی تربیت کرنے والے تھے، عرب و عجم سے حدیث و تفسیر کی کتابیں آپ تک پہنچنے لگیں۔ آپ نے تیزی فہم، فکرِ سلیم اور تائیدِ الٰہی کی بناء پر محدثین کا مسلک اختیار کیا۔ جب آپ مولانا حبیب اللہ قندھاری رحمہ اللہ سے علمی اور روحانی استفادہ کرنے کے لیے قندھار تشریف لے گئے تو قندھار کے قاضی اور علماء آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر ملا کٹہ نے آپ سے دشمنی کی اور آپ کی مخالفت کے درپے ہوا۔ قندھار کے قاضی القضاۃ کی رائے قندھار کے قاضی القضاۃ قاضی غلام نے ملا سعد الدین مقری کو ایک خط لکھا جس میں ملا کٹہ کی شکایت کی اور حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے اوصافِ حمیدہ کا یوں ذکر کیا: حقائق و معارف آگاہ موفق من عنداللہ قائد الخلق الیٰ صراطِ اللہ محی السنہ و قامع البدعت میاں محمد اعظم کے حق میں یہ کہنا بجا اور درست ہے: ((مملوٌّ بالسُنَّةِ من الفرق الي القدم)) ’’یہ انسان سر سے پاؤں تک سنت میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘ اُنہوں نے سیر و سلوکِ باطن میں نسبت اویسی حاصل کرنے کے بعد محض اللہ تعالیٰ کی عنایت سے طریقہ نقشبندیہ میں قدم رکھا اور اس طریقہ کے سیر و سلوک کی تکمیل کی اور اس میں مجاز ہوئے۔ اس کے بعد سید آدم بنوری قدس اللہ سرہ کے طریق کا بھی اکتساب کیا اور سلسلہ بنوریہ میں بھی مجاز ہوئے، مختصر یہ کہ میاں محمد اعظم کا ظاہر تقویٰ اور شریعتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیور سے آراستہ ہے اور اُن کا باطن اہلِ صفا کے احوال و مقامات سے مزین ہے۔ میاں محمد اعظم میں نقص صرف یہی ہے کہ اپنے آپ کو مُلا کٹہ کے محبین و مخلصین میں شمار نہیں کرتے۔ مُلا کٹہ بزرگوار صاحبزادہ صاحب کو کبھی وہابی کہتا ہے اور کبھی بدعتی کہہ کر پکارتا ہے بلکہ بعض قابل اعتماد لوگوں سے سنا ہے کہ ملا کٹہ نے غلجائی کے آس پاس کے علاقوں میں ان کے خلاف نفرت اور عداوت پھیلانے کے لیے خطوط بھی ارسال کیے۔ [1]
Flag Counter