کیفیات طاری ہو گئیں۔ حضرت کے لباس سے بھی استفادہ کرنے والوں کو فیض حاصل ہوا۔ ایک طالب علم محض پوستین اُٹھانے سے وجد میں آ گیا۔ اسی وجہ سے وہ طالب علم ’’مرید پوستین‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ دور دراز علاقوں سے علماء اور مشائخ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور جب سبحان اللہ اور لا الٰہ الا اللہ کا وِرد کرتے، تو جمادات بھی آپ کے ساتھ بآوازِ بلند تسبیح و تہلیل کرتے اور وجد و اضطراب میں آ جاتے۔ دنیا داروں سے گریز امیروں اور دنیا داروں سے آخری دم تک گریزاں رہے۔ اُن کے انتہائی اصرار کے باوجود بھی اُن سے ملاقات نہ کرتے تھے اور اپنے بچوں اور دوستوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے رہے کہ دنیا داروں کی صحبت سم قاتل ہے۔ اپنے رب کی طرف متوجہ رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ضائع نہ کریں گے۔ فرماتے تھے: الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اُمراء اور دنیا داروں سے عمر بھر محفوظ رکھا۔ ابتداء میں تو حالت یہ تھی کہ امیر لوگ سینکڑوں روپے خرچ کرتے کہ ایک بار میرا چہرہ دیکھ لیں، لیکن میں انہیں ہرگز اجازت نہ دیتا تھا کہ وہ میرے گھر کے قریب بھی پھٹکیں۔ اتباع و احیائے سنت افغانستان میں اس وقت عوام اور خواص بدعات اور مشرکانہ رسوم میں مبتلا تھے حتیٰ کہ علماء اور مشائخ بھی بدعات اور رسوم کو دین سمجھتے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کبھی الہام کے ذریعے اور کبھی خواب میں ان بدعات سے سخت رو کا جاتا اور کتاب و سنت کی ترغیب دی جاتی۔ آپ حیران تھے کہ اس ملک میں جہاں علومِ کتاب و سنت کا نام و نشان تک نہیں اور نہ کتاب و سنت کا مواد موجود ہے یہ کام مجھ سے کیونکر سرانجام پائے گا؟ جب آپ کو یہ خیال آتا تو آپ کو الہام ہوتا (سَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْريٰ) بس آپ نے اتباعِ سنت پر کمر باندھی اور بدعتوں اور مشرکانہ رسموں کے خلاف آواز بلند کی اور علوم کتاب و سنت کی طرف متوجہ ہوئے۔ چونکہ |