تمام لوگ، کیا خواص، کیا عوام، بچپن ہی میں اُن کی للہیت اور پرہیزگاری پر حیرت زدہ تھے جب آپ جوان ہوئے تو آپ کو عنایتِ ربانی اور جذبہ غیبی نے پا لیا اور اللہ کے سوا ہر چیز سے بیزار ہو گئے اور اپنے رب کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گئے۔ آپ نے خلوت اختیار کر لی اور لوگوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ حضورِ دائمی اور پاسِ انفاس جو مرتبہ احسان سے عبارت ہے، یکایک آپ کو عطا کیا گیا اور آپ مرجعِ خلائق ہو گئے۔ فرماتے تھے کچھ مبادی ہیں اور کچھ مقاصد ہیں۔ مبادی سے مراد مقاصد تک پہنچنے کے وسیلے اور واسطے ہیں۔ لوگ وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً صوفیاء کے اشغال جو اُن کے مقرر کردہ لطائف سے متعلق ہیں، اخلاقِ حمیدہ یعنی تواضع، توکل، دنیوی خواہشوں میں اختصار، قناعت، صبر، رضا، زہد، تقویٰ، رتبہ یادداشت اور حضورِ دائمی کے حصول کے لیے وسائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے بے پایاں فضل سے اس حقیر کی تربیت کی ہے۔ اس فقیر کے دل میں اللہ تعالیٰ نے لطائف کے شغل کے بغیر ہی مقاصد کو دفعتاً ڈال دیا اور تمام اوصافِ ذمیمہ کو اپنی بے انتہاء رحمت سے میرے وجود سے کھینچ لیا اور احسان کا مرتبہ مجھے عطا کیا اور ماسوی اللہ کو میرے دل سے اُچک لیا اور یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو گئی کہ مربی حقیقی اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ ابتدائے سلوک میں آپ پر جذب اس قدر غالب تھا کہ مخلوق سے گریزاں تھے۔ سب رشتہ داروں اور دوستوں سے الگ تھلگ خواجہ ہلال پہاڑ میں جہاں کسی شخص کی رہائش نہ تھی، اقامت اختیار کر لی۔ پس حسبِ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہ جب اللہ کسی بندے کو دوست بناتا ہے تو اس کے لیے اہل زمین کے جی میں قبولیتِ القاء کر دی جاتی ہے، لوگ اس جگہ بھی آپ کے پیچھے پہنچتے تھے۔ زمانے کے علماء اور فضلاء آپ کے بارے میں حیرت زدہ تھے۔ حضرت رحمہ اللہ کا فیضان بعض لوگ محض آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے اور بعض صرف آپ کی زیارت سے صاحبِ حال ہو گئے اور اُن پر روحانی |