اگر کبھی کوئی عقدہ پیش آیا، تو مجھے یقین ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کسی دیوار اور کسی درخت کو آپ کے لیے گویا کر دے گا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ربِ ماجل شانہ، موافق گفتہ شیخ بامن معاملہ کردہ است۔‘‘ [1] ((میرے پروردگار نے شیخ کے ارشاد کے مطابق درودیوار کو میرے لیے گویا کر دیا)) منازلِ سلوک فرماتے تھے کہ جب میں الہام کی حقیقت نہیں سمجھتا تھا اور توحید کی معرفت پوری طرح مجھے حاصل نہ تھی، ایک بار میں اپنے دادا محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر گیا جو اس علاقے میں مرجعِ خلائق ہے تو القاء ہوا ’’لا الٰه غيرك‘‘۔ اس وقت میں نے گمان کیا کہ یہ ورد مجھے وظیفہ کے لیے سکھایا گیا ہے۔ اب مجھے سمجھ آیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے الہام تھا کہ میرے سوا کسی دوسرے کی طرف رجوع کرنا عبادت اور استعانت میں شرک ہے۔ ساری توجہ صرف اللہ ہی کی طرف کرنی چاہیے۔ بزرگوں کے مزاروں پر اس نیت سے جانا کہ میرا فلاں مطلب حاصل ہو جائے، توحید میں رخنہ ڈالتا ہے اور کلمہ شہادت کے منافی ہے۔ فرماتے تھے اگر کوئی خیال کرے کہ میں کسی نیک آدمی کی قبر پر اس لیے نہیں جاؤں گا کہ اُن سے کچھ مانگوں، بلکہ اس لیے جاؤں گا کہ قبر بابرکت جگہ ہے، وہاں میری دعا جلد قبول ہو گی، تو یہ بھی شرعاً غلط ہے۔ عبادت کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجد مقرر کی ہے۔ مقبرہ عبادت کی جگہ نہیں ہے، جیسے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’اغاثة اللهفان‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ فرماتے تھے کہ بچپن میں مجھے اس بات کا بہت شوق تھا کہ جنگل میں جا کر تنہائی میں دعا کروں۔ اس زمانے میں بعض اہل اللہ آپ سے فرماتے، تمہاری پیشانی میں ہم ایک نور دیکھتے ہیں، دیکھو علمائے سوء کی صحبت میں رہ کر اپنے دل کو خراب نہ کر لینا، اور |