Maktaba Wahhabi

220 - 458
ہی بہتر ہے۔)) امام صاحب لکھتے ہیں کہ عبداللہ نام آپ نے اس لیے رکھ لیا تھا کہ اس نام میں خدا کی الوہیت اور بندے کی عبودیت کا اظہار اور فروتنی کا اقرار ہے۔ آپ کے جدِاعظم محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ ولی کامل تھے۔ ان کا مزار مرجع خلائق تھا۔ حضرت عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ بزرگوار اور جدِ امجد کا شمار بھی اولیاء و صلحائے اُمت میں ہوتا تھا۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کریم ابن کریم ابن کریم تھے۔ آپ اور آپ کے آباء و اجداد سب اقلیمِ فقر کے فرمانروا تھے۔ سب نشہ درویشی سے سرشار تھے اور مال و جاہِ دنیوی سے یکسر بے نیاز تھے۔ ایک خط میں آپ لکھتے ہیں: ’’صاحبا! فقیر و فقیر زادہ ام و غریب زادہ ۔۔۔ عاجزی و گمنامی و خاکساری کارِماست و گوشہ نشینی و زاویہ گزینی شعارِ مااست۔‘‘ [1] حضرت الامام رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’غزنی میں آپ کا خاندان مشہور سادات میں سے تھا، مگر جب آپ سے کوئی پوچھتا کہ کیا آپ سید ہیں؟ تو آپ فرماتے، لوگ کہتے ہیں کہ ہم سید ہیں، لیکن عجم میں انساب کچھ ایسے خلط ملط ہو گئے ہیں کہ سیادت کا حال کچھ معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ [2] آپ نے سید ہونے سے تو انکار نہیں کیا۔ ازراہِ تواضع محض یہ کہا کہ عرب سے جب عجم میں سیادت منتقل ہوئی تو وہ کہاں تک خالص و بے آمیز رہی ہو گی۔ تعلیم آپ بچپن میں غزنی کے علماء سے پڑھتے رہے، علومِ متداولہ کی تحصیل آپ نے وہیں کی۔ آپ کی تیزی فہم اور سلامتی فکر پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ تفسیر و حدیث سے آپ کو والہانہ شغف تھا۔ غزنی میں کوئی ایسا مقتدر عالم نہ تھا جس سے آپ کا علمی ذوق
Flag Counter