Maktaba Wahhabi

196 - 458
مولانا ادریس صاحب اپنے ضعفِ جسمانی کے باعث دو سجدوں کے درمیان ذرا وقفہ کرتے ہیں۔ مولانا داؤد رحمہ اللہ ایک بار یہ صورت دیکھ کر فرمانے لگے: ’’مولانا محمد ادریس کاندھلوی قولاً حنفی ہیں لیکن عملاً اہل حدیث ہیں۔‘‘ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس بات سے محظوظ ہو کر کہا: ’’کیوں نہ ہوں، حدیث کے استاد ہیں۔‘‘ اس سے آپ اِن بزرگوں کی بے تعصبی اور وسعتِ مسلک کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ والدِ محترم کی وفات کے بعد ایک بار مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی علالت کی خبر آئی۔ میں اس خیال سے عیادت کو نہ جا سکا کہ بہت سے لوگ آتے ہوں گے اور مولانا کی استراحت میں خلل ہو گا۔ آخر ایک روز رہ نہ سکا اور حاضرِ خدمت ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر مولانا فرمانے لگے: ’’آپ کے والد تو مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے، آپ نے آنے میں اتنی دیر کر دی۔‘‘ واقعتاً اِن دونوں بزرگوں کے رگ و ریشہ میں ایک دوسرے کی محبت رچی ہوئی تھی۔ جب مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ، مفتی صاحب رحمہ اللہ سے ملنے تشریف لاتے تو مفتی صاحب رحمہ اللہ کے چہرے پر خوشی کی لہر پھیل جاتی تھی، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جب پاکستان کے 33 علماء نے متفقہ طور پر اسلامی دستور کے نفاذ کے لیے 22 نکات طے کیے، تو اجلاس کی صدارت مفتی صاحب رحمہ اللہ کر رہے تھے۔ اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ الفاظ کیا ہوں: قانون اسلام کے مطابق ہو گا یا قانون اسلام کے منافی نہیں ہو گا۔
Flag Counter