Maktaba Wahhabi

197 - 458
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا احتشام الحق تھانوی بحث میں زیادہ حصہ لے رہے تھے، کچھ دیر کے بعد مفتی صاحب نے مولانا داؤد غزنوی سے کہا: ’’مولانا! آپ بھی تو کچھ فرمائیں نا۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مفتی صاحب، مولانا داؤد غزنوی کی رائے کو کس قدر صائب اور دقیع سمجھتے تھے۔ ایک بار مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ میرے والد صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں اُنہوں نے ایامِ قید کا قصہ سناتے ہوئے کہا: ’’مجھے جیل میں اتنی تکلیفیں پہنچیں کہ بعض اوقات میرا دم گھنٹے لگتا تھا۔ ایک بار جیل کی کوٹھڑی میں اس قدر حبس تھا کہ اندر ہوا بالکل نہیں آ رہی تھی اور میں دروازے کی دہلیز کے پاس ناک لگا کر باہر کی ہوا حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔‘‘ یہ واقعہ سن کر مفتی صاحب بے چین ہو گئے اور کہنے لگے: ’’مولانا! بس کیجیے، سننے کی ہمت نہیں۔‘‘ پھر مفتی صاحب نے کہا، بزرگوں نے سچ کہا ہے: اَلْعَطَايَا عَليٰ مَتْنِ الْبَلَايَا اور اَلْمُشَاهَدَةُ بِقَدْرِ الْمُجَاهَدَةِ آپ کا موجودہ مقام اسلام کی خاطر انہی تکالیف کے باعث ہے۔ پھر مفتی صاحب نے کہا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شعر کے مصداق ہیں: ابرِ رحمت ہے سراسر یہ بلاؤں کا ہجوم صبر کر اے دل! کہ اب فضلِ خدا ہونے کو ہے اس کے بعد مفتی صاحب نے یہ دو شعر بھی پڑھے:
Flag Counter