Maktaba Wahhabi

194 - 458
مولانا غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمہ اللہ کی ملاقاتوں کا مقصد زیادہ تر ایمان تازہ کرنا اور آخرت کی یاد تھا۔ والد صاحب اکثر مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: مجھے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی بیباکی اور دلیری بہت پسند ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی بات ہو تو میں اُن سے کہہ دوں اور وہ آگے لوگوں تک پہنچا دیں۔ کیونکہ اُن کی تقریر کا انداز بہت واضح اور دلنشیں ہے۔ بات اُن کے دل سے نکلتی ہے اور دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ اور مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ دونوں میں اس قدر بے تکلفی تھی کہ وہ ایک دوسرے سے اپنی باتیں چھپاتے نہیں تھے۔ جب مفتی صاحب رحمہ اللہ کی ٹانگ اپریشن کے ذریعے کاٹ دی گئی تو ایک روز مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ والد صاحب کی عیادت کے لیے ہسپتال میں تشریف لائے۔ وہاں مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ پہلے سے موجود تھے۔ اُنہوں نے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو یہ واقعہ سنایا کہ مفتی صاحب نے اپریشن کے وقت بے ہوشی کا ٹیکہ لگوانے سے انکار کر دیا تھا اور ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ آپ لوگ اپنا کام کریں، میں اپنا کام کروں گا اور وہ کام یہ تھا کہ مفتی صاحب اِس وقت اللہ کی یاد میں محو ہو گئے تھے۔ اِس موقع پر مفتی صاحب نے بتایا کہ اپریشن کی رات بھی اُن کی نمازِ تہجد فوت نہیں ہوئی تو مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے۔ گزشتہ سال میری والدہ حج کے لیے تشریف لے گئیں۔ وہاں ایک روز مدینہ منورہ میں ایک وظیفے کے سلسلے میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا ذکر اس طرح آیا کہ والدہ نے وہ وظیفہ پڑھا اور فرمایا: یہ وظیفہ تمہارے والد کو مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے بتایا تھا اور کہا تھا کہ صبح کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان یہ چالیس بار پڑھنا چاہیے۔ وہ وظیفہ یہ تھا:
Flag Counter