’’میں تو جسمانی طور پر معذور ہوں، آپ کی باتوں سے میرے جسم میں زندگی آتی ہے۔‘‘ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور والد صاحب میں زیادہ تر آخرت کی باتیں ہوتی تھیں۔ ایسی ملاقاتوں میں اکثر میں نے اُنہیں روتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک دفعہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ والد صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اُن کے سامنے چائے رکھی گئی۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے کسی وجہ سے کچھ دیر توقف فرمایا تو والد صاحب نے کہا: ’’آپ چائے پیتے کیوں نہیں؟‘‘ پھر مفتی صاحب نے کہا: ’’دیکھیے میں نے یہ نہیں کہا کہ ’’آپ چائے پئیں۔‘‘ کیونکہ اس صورت میں مطلب یہ ہوتا کہ دراصل چیز تو میری ہے لیکن آپ حاصل کر سکتے ہیں اور پہلی صورت میں مفہوم یہ ہے کہ یہ چیز آپ ہی کا حصہ ہے، پھر آپ استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اِس نکتے پر مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے ذُومعنیین بات کہی۔ فرمایا: ’’واہ مفتی صاحب! یہ آپ ہی کا حصہ ہے۔‘‘ ایک زمانے میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کی تفسیر نہایت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ اُن دنوں وہ جب کبھی مفتی صاحب سے ملنے تشریف لاتے تو اُس تفسیرکے بارے میں اپنے خوشگوار تاثرات بیان فرماتے تھے۔ ایک روز فرمانے لگے کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر کے مطالعے کے دوران بعض اوقات میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُن کا کوئی فقرہ یا لفظ بدل دوں لیکن آخر غوروخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ وہاں وہی فقرہ یا لفظ ٹھیک بیٹھتا ہے۔ یہ بات سن کر مفتی صاحب نے جواب میں کہا: ’’یہ فہم بھی آپ ہی کو عطا ہوا ہے، یہ بھلا کس کس کو نصیب ہے۔‘‘ |