جنگ میں ہر فریق دوسرے کی اعلیٰ چیز کو چھینتا ہے۔ اللہ کی نظر میں ایمان سے اعلیٰ کوئی چیز نہیں، اس لیے اس شخص کے پاس ایمان کیسے رہ سکتا تھا۔ اپنے انتقال سے پیشتر مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کافی عرصہ تک بیمار، مضمحل اور کمزور رہے۔ وہ بعض اوقات اپنی کمزوری او نقاہت کے باوجود مفتی محمد حسن صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے جامعہ اشرفیہ تشریف لاتے۔ ان دنوں جامعہ نیلا گنبد کے پاس انار کلی بازار کی مول چند سٹریٹ میں تھا۔ مفتی صاحب چوتھی منزل پر مقیم تھے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہاں تشریف لاتے تو سیڑھیاں چڑھ کر چوتھی منزل تک پہنچتے اور بعض اوقات سیڑھیوں میں رُک کر دم لیتے تھے، لیکن ملاقات کے معمول میں فرق نہ آنے دیتے تھے۔ میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور والدِ گرامی کی ملاقات کے وقت اکثر پاس ہوتا تھا کیونکہ چائے وغیرہ کا انتظام میرے ہی سپرد تھا۔ پھر جب مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ واپس تشریف لے جاتے تو اُن کے لیے تانگے کا بندوبست بھی میری ذمہ داری تھی۔ اس خدمت اور مفتی صاحب سے نسبتِ فرزندی کے باعث مولانا مجھ پر خاص شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ایک شگفتہ مزاج بزرگ تھے۔ اُن کی گفتگو سے میرے والدِ گرامی بہت محظوظ ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار مولانا گفتگو کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے رُکے، تو والد صاحب نے کہا: پھر ذرا مُطرب اُسی انداز سے جاگ اُٹھے مُردے تری آواز سے یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایک آپریشن میں مفتی صاحب کی ایک ٹانگ کٹ چکی تھی۔ اُنہوں نے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی گفتگو سے خوش ہو کر فرمایا: |