مفتی محمد حسن رحمہ اللہ نے ایک بار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کی ولایت کا ایک واقعہ سنایا۔ وہ واقعہ یوں تھا کہ امرتسر میں ایک محلہ تیلیاں تھا، جس میں اہل حدیث حضرات کی اکثریت تھی۔ اس محلے کی مسجد اسی نسبت سے مسجد تیلیاں والی کہلاتی تھی۔ وہاں عبدالعلی نامی ایک مولوی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ سے پڑھا کرتے تھے، ایک بار مولوی عبدالعلی نے کہا کہ ابوحنیفہ سے تو میں اچھا اور بڑا ہوں کیونکہ اُنہیں صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں اور مجھے اُن سے کہیں زیادہ یاد ہیں۔ اس بات کی اطلاع مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کو پہنچی، وہ بزرگوں کا نہایت ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے یہ بات سنی تو اُن کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ اس نالائق (عبدالعلی) کو مدرسے سے نکال دو۔ وہ طالبِ علم جب مدرسے سے نکالا گیا تو مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص عنقریب مرتد ہو جائے گا۔‘‘ مفتی محمد حسن رحمہ اللہ راوی ہیں کہ ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ وہ شخص مرزائی ہو گیا اور لوگوں نے اُسے ذلیل کر کے مسجد سے نکال دیا۔ اس واقعہ کے بعد کسی نے امام صاحب مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ سے سوال کیا: ’’حضرت! آپ کو یہ کیسے علم ہو گیا تھا کہ وہ عنقریب کافر ہو جائے گا۔‘‘ فرمانے لگے کہ جس وقت مجھے اس کی گستاخی کی اطلاع ملی، اُسی وقت بخاری شریف کی یہ حدیث میرے سامنے آ گئی کہ: ((مَنْ عَادَي لِيْ وَلِيّاً فَقَدْ اٰذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ)) (حدیثِ قدسی) ’’جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔‘‘ میری نظر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ولی اللہ تھے۔ جب اللہ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہو گیا، تو |