غزنوی رحمہ اللہ نے مولانا محمد معصوم کو مدرس کی حیثیت سے اپنے مدرسہ غزنویہ میں بلا لیا۔ مفتی صاحب اپنے پہلے استاد مولانا محمد معصوم کے ساتھ ہی اس مدرسے میں چلے آئے۔ یہاں انہیں مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ سے پڑھنے کا موقع ملا اور اُنہوں نے دورہ حدیث کی تکمیل یہیں کی۔ یہاں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مفتی محمد حسن رحمہ اللہ صاحب دونوں ہم درس تھے۔ حضرت مفتی محمد حسن رحمہ اللہ فرماتے تھے: ’’مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ایک بہت بڑے ولی کے صاحبزادے ہیں اور خود بھی ولی ہیں۔ گویا ولی ابن ولی ہیں۔‘‘ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی صاحب کے درمیان جو محبت تھی، وہ عشق کے درجے میں تھی۔ مفتی صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا: ’’مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو نسبتِ باطنی حاصل ہے اور نسبتِ باطنی ایک دولتِ عظمیٰ ہے جو سخت مجاہدات اور ریاضتوں کے بعد ایک بندے کو اپنے اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت مفتی محمد حسن رحمہ اللہ کی رائے میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ صاحب قال نہ تھے، بلکہ صاحب حال تھے، وہ جب آخرت کے بارے میں گفتگو فرماتے تو لوگوں کو یوں محسوس ہوتا تھا گویا وہ جنت اور جہنم کا مشاہدہ کر کے باتیں کرتے ہیں۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مفتی محمد حسن رحمہ اللہ کی ملاقاتوں میں بعض اوقات مفتی محمد شفیع صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مفتی محمد شفیع صاحب کے درمیان بھی گہرے روابط تھے۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مفتی محمد حسن رحمہ اللہ دونوں کی وفات کے بعد ایک محفل میں فرمایا تھا۔ اب میرا کراچی سے لاہور آنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ مجھے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مفتی محمد حسن رحمہ اللہ نظر نہیں آتے اور میں اُن دونوں کی علمی گفتگوؤں سے محظوظ نہیں ہو سکتا۔ |