حضرت مفتی محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضرت والد علیہ الرحمہ کے گہرے مراسم تھے اور یہ تعلقات للہیت اور روحانیت کی اساس پر قائم تھے۔ آئندہ صفحات میں جو واقعات اور یادیں آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں، ان کی روایت حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادہ مولانا حافظ عبدالرحمان صاحب نے کی ہے اور اُنہیں قلمبند عزیزم خالد بزمی صاحب نے کیا ہے۔ (مرتب) حافظ عبدالرحمٰن صاحب نے فرمایا: مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ جب بھی میرے والدِ مرحوم کے پاس تشریف لاتے تو عام طور پر ان دونوں بزرگوں میں گفتگو علمی ہی ہوا کرتی تھی۔ مفتی محمد حسن مرحوم ایسی محفلوں کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ جب بھی تشریف لاتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ ہم دونوں کے درمیان علمی گفتگو ہوتی رہے۔ مفتی صاحب نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو وہ فہم اور بصیرت عطا فرمائی ہے کہ اُن کی گفتگو سے میری علمی پیاس بھجتی ہے۔ اِس موقع پر حافظ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مفتی محمد حسن رحمہ اللہ، حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے والدِ گرامی حضرت مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ مفتی صاحب ایک زمانے میں ہزارہ میں اپنے ایک استاد مولانا محمد معصوم صاحب سے پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت مولانا عبد الجبار |