Maktaba Wahhabi

185 - 458
نے عرض کیا: ’’آپ کھانے سے فراغت کے بعد تشریف لے جائیے۔‘‘ فرمانے لگے: ’’مجھے صرف نکاح پڑھانے کے لیے کہا گیا تھا۔ اُس وقت کھانا کھانے کا ذکر نہیں آیا تھا، اس لیے میں گھر سے کھانا کھا آیا تھا۔‘‘ اس جواب سے میں ایک طرف اپنی کوتاہی پر نادم ہوا اور دوسری طرف مولانا کی اس اصول پسندی پر ششدر رہ گیا۔ 1960ء میں میری شادی کا موقع آیا تو میرے دل میں یہ خواہش شدت سے گھر کر گئی کہ ایسا موقعہ تو زندگی میں عام طور پر ایک ہی بار آتا ہے، اگر میرا نکاح کسی اور نے پڑھایا تو میں ایک بہت بڑے اعزاز اور سعادت سے محروم رہ جاؤں گا۔ کیوں نہ اس بار بھی مولانا کو زحمت دی جائے اور اُن سے استدعا کی جائے۔ میں نے شادی سے ایک دو روز پیشتر اپنے محترم اُستاد پروفیسر سید ابوبکر غزنوی صاحب سے کہا: ’’آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ مولانا کے گھر میں پیدا ہوئے اور آپ کا نکاح انہوں نے پڑھایا۔ اے کاش! مجھے بھی یہ فخر حاصل ہو سکے اور زندگی کی یہ آرزو بھی پوری ہو جائے۔‘‘ پروفیسر صاحب موصوف نے میرا اشتیاق دیکھا تو فرمایا: ’’آپ کوئی فکر نہ کیجئے۔ آپ کا نکاح بھی وہی پڑھائیں گے۔ آپ مطمئن رہیئے۔‘‘ میری برات کے روز مولانا تشریف لائے اور مجھے یہ سعادت بھی نصیب ہو گئی۔ جس پر میں ساری زندگی فخر کر سکوں گا۔ مجھے کچھ دیر مولانا کے ساتھ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت کے سلسلے میں بھی کام کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ میں اس واقعے کو بھی اپنے لیے باعثِ افتخار خیال کرتا رہوں گا۔ پروفیسر ابوبکر غزنوی صاحب کی شادی کے موقعے پر مولانا نے مجھے جو دعوت نامہ ارسال فرمایا، وہ مولانا کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ یہ دعوت نامہ میرے پاس محفوظ ہے اور ان شاء اللہ
Flag Counter