Maktaba Wahhabi

186 - 458
ان کی یاد کے طور پر ہمیشہ میرے پاس محفوظ رہے گا۔ مولانا نے اس موقعے پر بہت کم لوگوں کو اپنے ہاتھ سے دعوت نامے لکھے تھے۔ مولانا اپنی وفاتِ حسرت آیات سے پہلے ایک طویل مدت تک شدید علالت میں مبتلا رہے۔ ایک موقعے پر ہسپتال سے کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر تشریف لے آئے تو میں عیادت کے لیے حاضر ہوا۔ اُن دنوں ڈاکٹروں نے انہیں عیادت کے لیے آنے والوں سے ملنے سے منع کر رکھا تھا۔ مولانا کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو نقاہت کے باوجود بستر سے اُٹھ کر دوسری منزل کی منڈیر تک آئے اور اپنے خادم محمد عمر کو آواز دے کر فرمایا: ’’عمر! نیچے بزمی صاحب آئے ہیں۔ اُن سے کہو کہ میں پہلے سے بہتر ہوں۔‘‘ علالت اور نقاہت کے باوجود مولانا کی آواز اسی طرح بارعب اور گونج دار تھی۔ مذکورہ الفاظ میں نے اپنے کانوں سے سنے اور مطمئن ہو کر واپس آیا۔ میں نے اس مختصر مضمون میں دانستہ فقط چند یادوں اور چند باتوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اکثر میری ذات سے متعلق ہیں۔ مولانا کے انتقال پُرملال کے بعد خاص طور پر علمی اور دینی حلقے ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو چکے ہیں اور اُن کے عقیدت مندوں کی مشتاق نگاہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن کی زیارت کے شرف سے محروم ہو چکی ہیں۔ مولانا کے علمی اور دینی مقام و فضیلت کا اندازہ کرنا اور اس کے بارے میں کچھ کہنا میرا منصب نہیں، اس سلسلے میں اُن کے بارے میں لکھنے والے علمائے کرام کے ارشادات اور اُن کے نگارشات سے استفادہ کرنا چاہیے۔
Flag Counter