کی تنظیمِ نو کے عظیم مقصد کی بجا آوری کے لیے جس شخصیت کو منتخب کیا، وہ بھی مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ تھے۔ اُنہوں نے پاکستان میں جمعیتِ اہل حدیث کے نام سے اس جماعت کے وابستگان کو ایک نہج پر اکٹھے کیا اور توحید و سنت کے نظریہ عظیمہ کی اشاعت و تبلیغ کے لیے ازسرِنو کام کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں کچھ ہی دیر بعد ایسی عظیم الشان کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا، جن کی مثالیں اس سے پہلے مفقود و معدوم تھیں۔ ایسے اجلاس مولانا کے ارادت مندوں اور عقیدت کیشوں کے لیے ان کی زیارت سے مستفید ہونے اور ان کے ارشادات سے راہنمائی حاصل کرنے کے لیے بہترین مواقع ہوتے تھے۔ راقم الحروف کو مولانا مرحوم کی ذات سے متعدد فائدے پہنچے ہیں جو مجھے زندگی کے ہر مقام پر ہمیشہ یاد رہیں گے اور کبھی فراموش نہیں ہو سکیں گے۔ 1956ء میں مجھے ایم اے (عربی) کا امتحان دینا تھا۔ نصاب میں کچھ کتابیں ایسی بھی شامل تھیں جو نہ بازار میں ملتی تھیں اور نہ لائبریریوں سے حاصل ہو سکتی تھیں۔ میں ایک روز مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے برسبیلِ تذکرہ اُن سے اپنی اس پریشانی کا ذکر کیا۔ مولانا نے فوراً مجھے اپنے ذاتی کتب خانے سے ایسی کتابیں مہیا فرما کر میری ذہنی پریشانی دور کر دی۔ اگر اس موقعے پر مجھے وہ کتابیں حاصل نہ ہو سکتیں تو میں اپنے مذکورہ امتحان کے سلسلے میں خاطر خواہ تیاری نہیں کر سکتا تھا۔ 1957ء میں میری چھوٹی ہمشیرہ کی شادی ہوئی۔ حسنِ اتفاق سے میری ہمشیرہ کے سسرال بھی مولانا مرحوم کے عقیدت مند اور ہم مسلک تھے۔ اس موقعے پر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر اس تقریب میں خطبہ نکاح مولانا پڑھ دیں، تو یہ ہمارے لیے بہت بڑی سعادت ہو سکتی ہے۔ مولانا سے عرض کیا گیا، تو مولانا ازراہِ نوازش تشریف لے آئے اور اُنہوں نے نکاح کا خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔ لیکن خطبے سے فارغ ہو کر فوراً تشریف لے جانے لگے۔ میں |