Maktaba Wahhabi

183 - 458
مفتی محمد حسن رحمہ اللہ، مولانا احمد علی رحمہ اللہ اور سید ابو الحسن علی ندوی ایسے بزرگوں کے ساتھ مولانا داؤد غزنوی مرحوم کے تعلقات ان کی شخصیت کی جامعیت اور ہمہ گیری کا بہت بڑا ثبوت ہیں۔ آج سے چند سال پہلے جب پنجاب یونیورسٹی نے ’’بین الاقوامی اسلامی مجلسِ مذاکرہ‘‘ کا انتظام کیا تو اس موقعے پر مولانا داؤد غزنوی مرحوم نے بعض مندوبین کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں چائے کی دعوت دی اور اس موقعے پر نہایت فصیح عربی میں خطبہ پیش فرمایا جسے معروف عرب عالم دین جناب مصطفیٰ الزرقاء اور دیگر مصری و شامی مندوبینِ مذاکرہ نے قدر و تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔ کچھ عرصہ بعد جب مصر کے ڈاکٹر فہام محکمہ اوقاف کے مشیر کی حیثیت سے لاہور آئے تو پروفیسر سید ابوبکر غزنوی صاحب نے اسلامیہ کالج (سول لائنز) کی مجلسِ عربی و فارسی کی طرف سے اُن کو چائے کی دعوت دی۔ اِس تقریب کی صدارت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے فرمائی اور اس موقعے پر بھی عربی میں نہایت شاندار خطبہ دیا۔ ڈاکٹر فہام نے خطبہ سن کر مولانا مرحوم اور خاندانِ غزنویہ کی علمی اور دینی خدمات کا اعتراف نہایت زور دار الفاظ میں کیا۔ وہ اس موقع پر پروفیسر ابوبکر غزنوی صاحب کی عربی دانی اور زورِ خطابت پر بھی داد دیتے رہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد جہاں اکثر کل ہند سطح کی دینی تنظیمیں ختم ہو گئیں یا اگر حالات کی دستبرد سے بچ رہیں، تو بہت حد تک کمزور ہو گئیں، وہاں جماعت اہل حدیث کو بھی اس اعتبار سے کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جماعت کے کئی علماء، کئی مدرسے اور کئی کتب خانے بھارت میں رہ گئے۔ یہ جماعت نہ جانے کب تک اسی حالت میں رہتی لیکن خدا نے اس جماعت
Flag Counter