ان دونوں بزرگوں کے ملنے والے باخبر ہیں۔ مجھے مولانا احمد علی مرحوم کی زندگی میں اکثر مسجد شیرانوالہ میں جمعہ پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔ ایک بار مولانا احمد علی مرحوم جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ عورتوں کی صفوں سے کچھ شور سا سنائی دیا۔ مولانا نے شور کا سبب معلوم کرنا چاہا تو انہیں بتایا گیا کہ کوئی دو عورتیں حنفی اور وہابی کے سوال پر جھگڑ پڑی ہیں۔ مولانا احمد علی مرحوم نے یہ بات سنی تو خطبے ہی میں فرمانے لگے: ’’اس قسم کی فضول باتوں پر عورتیں کیوں جھگڑتی ہیں؟ ہم مردوں میں تو کبھی اس قسم کا اختلاف نہیں ہوتا۔ میں ہمیشہ عید کی نماز مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی قیادت میں ادا کرتا ہوں۔‘‘ مولانا احمد علی رحمہ اللہ کے ارادت مندوں نے کئی بار اُن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ عید کی نماز الگ پڑھانے کا انتظام کریں، لیکن مولانا احمد علی مرحوم نے اپنی زندگی میں اس وضعداری میں کوئی فرق نہ آنے دیا اور آخری وقت تک عید کی نماز اقبال پارک لاہور میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی امامت ہی میں ادا فرماتے رہے۔ جب مولانا احمد علی مرحوم انتقال فرما گئے۔ تو مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اپنی علالت اور نقاہت کے باوجود شیرانوالہ دروازہ سے یونیورسٹی گراؤنڈ تک جنازے کے ساتھ گئے اور مولانا احمد علی مرحوم کے اوصاف و محاسن یاد کر کے اُن کی وفات پر گہرے افسوس اور صدمے کا اظہار کرتے رہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ایک موقعے پر پاکستان تشریف لائے اور لاہور میں بھی ورود فرمایا۔ مولانا داؤد غزنوی مرحوم نے دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے طلبہ کی طرف سے انہیں مدعو فرمایا۔ اس موقعے پر سید صاحب موصوف نے دیگر فرمودات کے علاوہ خود مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور خاندانِ غزنویہ کے دیگر بزرگوں کی دینی اور علمی خدمات کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ حقیقتاً بہت بڑا اعترافِ عظمت ہے۔ |