Maktaba Wahhabi

181 - 458
خاندانِ غزنویہ کے لیے احترام و عقیدت کے دیرینہ جذبات موجود تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد پروفیسر صاحب کی بدولت مجھے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ (مرحوم) کا قُرب حاصل کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی اور اُن کی زیارت کے متعدد مواقع حاصل ہو گئے جو میرے لیے ہمیشہ ہمیشہ باعثِ افتخار رہیں گے۔ مولانا مرحوم کی ذات میں قدرت نے متعدد اوصاف پیدا فرمائے تھے۔ میں ذاتی طور پر اُن کی جس خوبی کا سب سے زیادہ معترف ہوں، وہ مسلک کے اعتبار سے اُن کی کشادہ دلی اور بلند نظری تھی۔ میں نے مولانا کی زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہیں سنے جن سے کسی بھی مسلک کے کسی شخص کی دل آزاری ہوتی ہو۔ مجھے اکثر اہل حدیث کے علاوہ بعض دوسرے مسلک کے ایسے لوگوں سے مولانا کے بارے میں گفتگو کا موقعہ ملا جو کسی طرح بھی اپنے محدود دائروں سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے، لیکن مولانا کے بارے میں اُن لوگوں کی زبانوں پر بھی میں نے احترام اور عقیدت کے الفاظ سنے۔ بلاشبہ یہ اعتراف مولانا مرحوم کی عظمت کو بہت بڑا خراج ہے۔ مسلک کے اعتبار سے مولانا کی کشادہ دلی اور بلند نظری ہی کا نتیجہ تھا کہ دیگر مسالکِ حقہ کے جید علماء مثلاً مفتی محمد حسن رحمہ اللہ، مولانا احمد علی رحمہ اللہ اور سید ابو الحسن علی ندوی وغیرہ سے مولانا کے مخلصانہ اور گہرے روابط تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) اپنی ایک ٹانگ سے محرومی اور فالج زدہ ہونے کے باوجود ایک بار ایک جیپ نما گاڑی میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ سے ملنے کے لیے شیش محل روڈ پر تشریف لائے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا احمد علی مرحوم کے درمیان جو محبت آمیز روابط تھے، ان سے
Flag Counter