امرتسر پہنچنا تھا، انہیں اس میں جگہ نہیں مل سکی، اس لیے وہ تشریف نہیں لا سکے۔ اس خبر سے لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی اور اُن میں سے اکثر ٹوٹے دلوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھروں کو واپس گئے۔ منتظمینِ جلسہ نے مولانا کی جگہ پر سید خالد گیلانی اور مولوی بشیر اخگر کی تقریریں کرا دیں لیکن ظاہر ہے کہ جو لوگ فقط مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات سننے کی غرض سے وہاں پہنچے تھے، اُنہیں اس وقت کسی اور مقرر سے کم ہی دلچسپی ہو سکتی تھی۔ ہم بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جو مولانا کے نہ آ سکنے کی خبر سن کر گھروں کو واپس چلے آئے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد برصغیرِ پاک و ہند کے سیاسی حالات یکسر کچھ ایسی صورت اختیار کر گئے کہ امرتسر کا شہر شعلوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ 4 اگست 1947ء تک شاید امرتسر کا کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہو گا جو پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور نہ ہو گیا ہو۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے اور امرتسر سے ہجرت پر مجبور ہو جانے کے باعث میں امرتسر میں مولانا کی زیارت نہ کر سکا اور اُنہیں پہلی بار دیکھنے کا موقع مجھے لاہور ہی میں آ کر نصیب ہو سکا۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت میں ابھی سکول کا طالب علم تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ لاہور آنے کے بعد جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا، تو گھر والوں نے مجھے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل کرا دیا۔ یہاں میرے داخل ہونے کے چند ماہ بعد سید ابوبکر غزنوی صاحب اِسی کالج میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے تشریف لے آئے۔ میں عربی کا طالبِ علم تھا۔ مجھے اُن سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہو گئی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے نئے پروفیسر صاحب مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے فرزندِ ارجمند ہیں تو مجھے خاص طور پر اس لیے زیادہ خوشی ہوئی کہ میرے دل میں موروثی طور پر |