Maktaba Wahhabi

175 - 458
غرض مولانا جس طرح سیاسی بصیرت کے حامل تھے، اس سے بڑھ کر حضرت کو درسِ نظامی کی کتابوں پر عبور حاصل تھا۔ صرف و نحو اور تفسیر و حدیث اور فقہ میں پوری دسترس رکھتے تھے۔ مولانا صاحب رحمہ اللہ، صاحبِ جلال و جمال تھے۔ ایک دفعہ نماز مغرب کا وقت تھا، اس وقت ہمارے اسباق کے ساتھی مولانا بشیر احمد صاحب پتوکی والے حضرت کے حکم سے دارالعلوم میں امامت کرایا کرتے تھے۔ امام صاحب ابھی وضو کر رہے تھے کہ اذان ختم ہو گئی۔ حضرت مولانا نے ایک دوسرے طالبِ علم کو جماعت کرانے کا حکم فرمایا۔ مولوی بشیر صاحب فوراً بول اُٹھے کہ میں امام ہوں اور امام راتب کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو امامت کرنے کی اجازت نہیں۔ حضرت مولانا صاحب رحمہ اللہ نے یہ بات سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور مولوی بشیر کے وضو کرنے تک آپ اسی حالت میں رہے۔ مولوی بشیر صاحب نے جماعت کرائی۔ بعد میں حضرت نے فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کہ میں نے آپ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو امامت کے لیے کہہ دیا۔ میں بیمار ہوں، اتنی لمبی سیڑھیاں اُتر کر آتا ہوں۔ آپ بھی ذرا میرا خیال رکھا کریں۔ اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے کہ ایک دن صبح کی اذان ہوئی تو مولانا فوراً نیچے تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ ابھی اذان کا وقت نہیں ہوا تھا بلکہ دو منٹ باقی تھے، اس لیے دوبارہ اذان کہو اور یہ بات حضرت رحمہ اللہ نے بڑے جلال میں کہی۔ نماز کے بعد وظیفہ مکمل کر کے اوپر تشریف لے گئے، پھر نیچے تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ صبح کی اذان وقت پر ہوئی تھی۔ اور الخطاء مني والله ورسوله برئيان۔ جن لوگوں پر میں ناراض ہوا تھا، ان سے معافی چاہتا ہوں۔ آپ کے یہ الفاظ سن کر کئی نمازیوں کی آنکھوں میں آنسو
Flag Counter