Maktaba Wahhabi

169 - 458
بعض طلبہ جو صرف و نحو کے لحاظ سے اپنے رفقاء سے آگے تھے، لیکن بامحاورہ ترجمہ کرنے میں سب سے پیچھے تھے۔ مولانا رحمہ اللہ انہیں اپنی زبان ترشوانے کی ترغیب دلاتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم مؤطا کے گھنٹے کا شدت سے انتظار کرتے۔ جس دن ناغہ ہو جاتا ہمیں اس کا نہایت دکھ ہوتا۔ مولانا رحمہ اللہ کے درس میں علم بھی تھا، وقار بھی، ادب بھی، زبان بھی، اختلاف رائے کے باوجود ائمہ کا نام اتنے ادب و احترام سے لیتے کہ سننے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ مولانا علیہ الرحمۃ میں یہ خوبی بدرجہ غایت موجود تھی کہ مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے۔ پورا درس نہایت دلچسپ ماحول میں ہوتا۔ تکان اور یبوست نام کو نہ ہوتی جیسا کہ عام اساتذہ کے اسباق میں ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اُنہیں کوئی علمی نکتہ بیان فرمانا ہوتا تو طلبہ کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ فرماتے اور کہتے، العلم، العلم۔ بار بار سمجھانے کے بعد بھی کوئی مسئلہ کسی کے ذہن نشین نہ ہوتا تو آپ يا قلة العلم کے الفاظ فرماتے۔ ہمارے مدارس میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بعض اساتذہ دورانِ درس طلبہ کو اپنے گرد اس طرح جمع کیے رکھتے ہیں جیسے شہد کا چھتہ مکھیوں کو، لیکن مولانا علیہ الرحمۃ حلقے کو وسیع کرنے پر بہت زور دیتے۔ آپ کے درس کی نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ دورانِ درس دنیا کی کسی بات کا تذکرہ نہ فرماتے۔ اگر کوئی صاحب ملاقات کے لیے آتے تو کیا مجال کہ آپ سے دورانِ درس بات کر سکے۔ آپ ہاتھ کے اشارے سے اُسے بیٹھنے کو کہتے۔ درس کے بعد اُس سے گفتگو فرماتے۔ آپ کے ہاں یہ طریقہ ہرگز رائج نہ تھا کہ مسند حدیث پر بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا داری کے تذکرے بھی ہو رہے ہیں۔ آپ طلبہ کو مختلف نصیحتیں فرماتے رہتے۔ خریدِ کتب اور مطالعے
Flag Counter