کی طرف آپ خصوصیت سے توجہ دلاتے۔ کتبِ اصولِ فقہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ اصولِ فقہ پر جتنی کتابیں میرے پاس ہیں، پاکستان میں کسی عالمِ دین کے پاس نہیں ہیں تو یہ دعویٰ بےجا نہ ہو گا۔ ایک دفعہ آپ نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا میں تمہیں شیخین (امام ابو تیمیہ اور ابن قیم علیہما الرحمۃ) کی کتب اپنے مطالعہ میں رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ان دونوں حضرات کے ہاں علم کے خزانے ہیں اور کوئی اہل علم ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ دورانِ درس آپ ضروری اشارات لکھواتے۔ غرض کہ درس اس طرز پر ہوتا کہ خود بخود ذہن نشین ہوتا جاتا۔ افسوس! کہ ہم آج ایسی جامع الصفات، ہستی سے محروم ہیں جن میں علم بھی تھا، عمل بھی۔ نظم بھی تھا، وقار بھی، دین بھی تھا، سیاست بھی۔ حسن بھی تھا اور سلیقہ شعاری بھی۔ جمال بھی تھا اور جلال بھی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل کو تقویٰ کے لیے منتخب کر لیا تھا اور اُس سے مزین کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔ اللهم اغفرله وادخله جنة الفردوس |