اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ﴾۔ اس خطبے کا ارشاد فرمانا تھا کہ مجمع کی حالت بدل گئی اور لوگ جو سہمے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا تذکرہ کرنے لگے۔ مولانا علیہ الرحمۃ میں سلیقہ، نظم و ضبط بدرجہ غایت تھا۔ چنانچہ آپ طلبہ کو بھی انہی باتوں کی تلقین فرماتے۔ آپ نے انہی اجلاسوں میں ایک دفعہ فرمایا کہ آپ اپنے اندر نظم و ضبط، سلیقہ اور صفائی کے اوصاف پیدا کریں۔ میں تمام طلبہ سے کہتا ہوں کہ وہ اُجلا لباس پہنیں، اپنی گفتگو، نشست و برخاست اور تعلیم میں اپنے آپ کو ایک مہذب اور شائستہ طالب علم کی حیثیت سے پیش کریں۔ آپ کسی چیز کو بے قرینہ رکھنے کو پسند نہ فرماتے۔ کتابیں، تپائیاں، چٹائیاں، ان میں سے کوئی چیز بھی بغیر قرینے کے پڑی ہوتی تو آپ طلبہ کو ڈانٹتے اور فرماتے، نہ معلوم تمہیں کب تمیز آئے گی؟ لیکن جہاں آپ ڈانٹتے، وہاں آپ طلبہ کو اچھی طرح سمجھاتے کہ کس طرح چیزوں کو رکھا جاتا ہے۔ مدرسہ تقویۃ الاسلام میں وضو گاہ چونکہ جائے نماز سے متصل ہے، اس لیے بعض طلبہ یا نمازی وضو کرنے کے بعد ننگے پاؤں صفوں پر آ دھمکتے۔ آپ ایسے موقعوں پر خفگی کا اظہار کرتے اور فرماتے: ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾۔ مولانا عموماً اپنے دلائل کی تائید میں آیاتِ قرآنیہ پڑھتے، جن سے ایک طرف آپ کی قرآن مجید سے شیفتگی کا اظہار ہوتا۔ دوسری طرف ان لوگوں کا جواب بھی ہو جاتا، جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب الحدیث صرف حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قوتِ بیان کا زور بھی بڑھ جاتا۔ میں نے آپ کے طریقہ تبلیغ کو مبنی بر حکمت پایا ہے۔ طلبہ کے علاوہ اگر انہیں کسی کو منع کرنا ہوتا تو بڑی حکمت اور سلجھے ہوئے انداز میں منع فرماتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک شخص نماز ادا کرنے آیا اور صرف تکبیر تحریمہ کہہ کر بغیر ہاتھ باندھے رکن نماز میں شامل ہو گیا۔ |