Maktaba Wahhabi

166 - 458
مطبخ میں ہوتا تھا، لیکن طلبہ انفرادی طور پر کھاتے تھے جس سے وقار اور نظم متاثر ہوتا تھا۔ میں نے اپنے رفقاء کی معیت میں مولانا رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ ہم اجتماعی کھانے کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے ہم سے تعاون کا اظہار فرمایا اور برتنوں اور دیگر اشیاء کا انتظام کر دیا گیا۔ اس طرح مجھے مولانا علیہ الرحمۃ کے زیادہ قریب ہونے کا موقع ملا۔ مدرسہ کے حسابات اور خط و کتابت کے سلسلے میں ہر دوسرے تیسرے دن مولانا رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری ہوتی لیکن طالب علمی کے ابتدائی دَور کی وجہ سے جب مولانا رحمہ اللہ مجھے بلاتے تو مجھ پر کپکپی طاری ہو جاتی۔ ان کی گرج دار آواز سے سہم جاتا۔ یہ آواز ظاہراً گرجدار تھی لیکن حقیقت میں ایک مشفق کی آواز تھی۔ میرا یہ ڈر روز بروز کم ہونے لگا اور میں ان سے مانوس ہونے لگا، پھر یہ کیفیت ہوئی کہ کبھی کبھار آپ مجھے کھانے کی کوئی چیز دے دیتے اور عید کے موقع پر بعض اوقات عیدی سے بھی میری حوصلہ افزائی ہونے لگی۔ مولانا رحمہ اللہ کے اس سلوک سے میں نے اپنے آپ کو طلبہ سے برتر محسوس کرنا شروع کر دیا۔ مدرسہ میں ہم نے ایک جمعیت بھی قائم کی تھی۔ مولانا علیہ الرحمۃ کبھی کبھار اُس میں شرکت فرماتے اور ہمیں فنِ تقریر اور علمی ترقی کے لیے ہدایات دیتے۔ اُن کے ارشادات آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا: عزیزو! تقریر تمہارے علم کا پیمانہ ہے۔ اپنے آپ کو ایک بہتر مقرر بنانے کی کوشش کرو۔ ایک مقرر خوشی، غم اور یاس کی حالتوں میں بھی عوام کے جذبات کو بے قابو نہیں ہونے دیتا۔ اس کے حق میں آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اُس خطبے کی مثال بیان کی جو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انتقال کر گئے ہیں، میں اُس کا سر قلم کر دوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ آپ نے خطبہ مسنونہ پڑھا اور اس کے بعد فرمایا: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ۔
Flag Counter