46ء کی بات ہے جب میں پہلی دفعہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ مسجد قدس میں امرتسر میں ایک مبتدی طالب علم کی حیثیت سے زیرِ تعلیم تھا۔ شعور ابھی پختگی کے مراحل طے کر رہا تھا۔ ایک دن طلبہ سے معلوم ہوا کہ مدرسہ غزنویہ کے مہتمم حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ امرتسر تشریف لا رہے ہیں۔ میں بھی شوقِ زیارت لے کر مدرسہ غزنویہ پہنچ گیا۔ میرے پہنچنے سے پہلے مولانا تشریف لا چکے تھے۔ میں نے آپ سے مصافحہ کیا اور طلبہ کے حلقے میں بیٹھ گیا۔ ملکی مسائل اور مدرسہ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ ملک تقسیم ہو گیا تو میں نے عربی تعلیم کی تکمیل کے لیے دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور میں، جو امرتسر سے منتقل ہو کر آیا تھا، داخلہ لے لیا۔ مولانا علیہ الرحمۃ کو جب معلوم ہوا کہ ایک میٹرک پاس طالب علم بھی ہمارے مدرسہ میں داخل ہوا ہے تو آپ نے مجھے بلایا۔ تعارف کے بعد آپ بے حد خوش ہوئے۔ اس لیے بھی کہ ہمارے بزرگوں کی عقیدتیں اس خاندان کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ مدرسہ چونکہ ابتدائی مراحل میں تھا اور اس کے حسابات اور خط و کتابت کے لیے ایک ناظم دفتر کی ضرورت تھی۔ مولانا مرحوم نے مجھے اس کام پر لگایا، تعلیم کے علاوہ میں نے اس کام کو بھی اپنے ذمہ لے لیا۔ میں چونکہ سکول کے ماحول سے نکل کر وہاں پہنچا تھا، اس لیے بعض چیزیں طبیعت سے میل نہ کھاتی تھیں جو پرانے عربی مدارس میں رائج ہیں۔ کھانے کا انتظام اگرچہ مدرسہ کے |