ایک عظیم کردار مولانا صبح نو دس بجے اپنے دفتر آ جاتے، پھر دوپہر کو کھانے کے وقت اوپر جاتے۔ تھوڑی دیر بعد پھر آ جاتے اور مغرب کی نماز کے بعد تک نیچے تشریف رکھتے۔ وفات سے پانچ چھ سال پہلے دل کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی تھی، اس لیے بعض دفعہ یہ پابندی قائم نہ رہ سکتی۔ ملاقات کے لیے ہر قسم کے لوگ آتے اور الگ الگ مقصد لے کر آتے، مگر وہ ہر ایک سے ملتے۔ کسی کی دل شکنی نہ کرتے۔ بارہا ایسا ہوتا کہ اوپر جاتے، اسی وقت کوئی ملنے والا آ جاتا، اطلاع پہنچتی تو پھر نیچے آ جاتے۔ ان کو چار منزلیں اوپر جانا پڑتا تھا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھتے اور اسی دھیمی رفتار سے نیچے آتے۔ اکثر کہا کرتے کہ یہ ’’سیڑھیں‘‘ میرے لیے ایک عذاب ہے۔ وہ ’’سیڑھیاں‘‘ نہیں ’’سیڑھیں‘‘ کہتے تھے۔ اندازہ کیجیے کتنی سیڑھیں اوپر چڑھتا ہوں اور پھر کتنی نیچے آتا ہوں۔ بعض دفعہ یہ بھی کہتے کہ جی چاہتا ہے کہ سیڑھیوں کی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نیچے ہی دو تین کمرے تعمیر کر لیے جائیں، مگر تعمیر کے لیے خرچ کہاں سے لاؤں؟ فرمایا کرتے: میں کسی ملنے والے کو ملنے سے انکار نہیں کر سکتا، اس لیے اوپر نیچے آنا جانا ضروری ہے۔ لیکن یہ سیڑھیں بڑی تکلیف کا باعث ہیں۔ یہ مجھے مار ڈالیں گی۔ یہ ان کا ایک عظیم کردار تھا کہ تکلیف کے باوجود نیچے تشریف لاتے، فقط اس لیے کہ ملاقات کرنے والے پریشان نہ ہوں اور انہیں مایوس نہ لوٹنا پڑے۔ پیر صاحب نے مسند خالی کر دی کبھی کبھی اپنی زندگی کے گزشتہ دور کی باتیں بھی خوش ہو کر سناتے۔ ایک دن بتایا کہ تحریکِ عدم تعاون کے زمانے میں میں اور مولانا ظفر علی خاں سیالکوٹ کے دَورے پر گئے۔ ایک جگہ جا رہے تھے کہ اثنائے سفر میں علی پور سیداں پہنچ گئے۔ میں نے مولانا ظفر علی خاں سے کہا: چلیے |